ناسا کا سپیس سنٹر ہیوسٹن سے بیس منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے‘ یہ سنٹر انسانی معجزہ ہے‘ یہ امریکا کے صدرآئزن ہاور نے 1958ءمیں بنوایا تھا‘ ناسا کا مقصد خلا کی تحقیق تھا‘ ناسا نے پائینیرون کے نام سے 1958ءمیں پہلا خلائی مشن روانہ کیا‘ یہ مشن زیادہ کامیاب نہ ہو سکا‘ ناسا نے اس کے بعد 71 خلائی مشن روانہ کئے‘ 1969ءمیں اپالو 11 چاند پر اترنے میں کامیاب ہو گیا‘ چاند گاڑی میں دو خلانورد نیل آرم سٹرانگ
اور ایڈون بز سوار تھے‘ نیل آرم سٹرانگ پہلا انسان تھا جس نے چاند پر قدم رکھا یوں چاند پر پہنچنے کا انسانی خواب پورا ہو گیا‘ یہ انسانی تہذیب اور تاریخ کا محیرالعقول واقعہ تھا‘ یہ واقعہ ہمیشہ ہمیشہ کےلئے تاریخ کا حصہ بن گیا‘ ناسا نے اس کے بعد چھ مشن چاند پر بھجوائے‘ ان میں اپالو 13 بھی شامل تھا‘ یہ مشن 11 اپریل 1970ءکو بھجوایا گیا لیکن چاند کے قریب پہنچ کر چاند گاڑی کا آکسیجن ٹینک پھٹ گیا‘ مشن واپس آیا‘ تینوں خلا نورد جیمز لوویل‘ جان سویگرٹ اور فریڈ ہیز بڑی مشکل سے زمین پر اترے‘ کامیابی اور ناکامی کی یہ تمام داستانیں ناسا کی دیواروں پر تحریر ہیں اور میں یہ داستانیں پڑھنے کےلئے 28مئی 2017ءکو ناسا پہنچ گیا۔ناسا کے دو حصے ہیں‘ پہلا حصہ ہیوسٹن میں ہے اور دوسرا فلوریڈا کے شہر کیپ کنورل میں واقع ہے‘ خلا پر تحقیق‘ چاند گاڑی کی تیاری اور خلا نوردوں سے رابطے یہ کام ہیوسٹن کے سپیس سنٹر میں ہوتے ہیں جبکہ خلائی شٹل کیپ کنورل سے لانچ کی جاتی ہے‘ کیپ کنورل گلف آف میکسیکو کی ایک ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں سے پیسفک اور اٹلانٹک اوشین دونوں قریب ہیں‘ یہ شہر شاید اس لئے خلائی شٹلز کی لانچ کےلئے منتخب کیا گیا کہ اگر خدا نخواستہ شٹل گر جائے یا اسے کوئی حادثہ پیش آ جائے تو یہ شہری آبادی پر گرنے کی بجائے گلف آف میکسیکو‘ اٹلانٹک یا پیسفک اوشین میں گرے یوں لوگ اور ناسا دونوں بڑے نقصان سے بچ جائیں ‘ ناسا عوام کےلئے اوپن ہے‘ آپ کوئی بھی ہیں اور آپ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہیں آپ ٹکٹ
خرید کر ناسا کا دورہ کر سکتے ہیں‘ ناسا کے سپیس سنٹر کے تین حصے ہیں‘ پہلے حصے میں سپیس شٹلز نظر آتی ہیں‘ آپ جوں ہی ناسا کی عمارت کے سامنے پہنچتے ہیں‘ آپ کو بوئنگ ٹرپل سیون اور اس کے اوپر خلائی شٹل نظر آتی ہے‘ یہ شٹل وہ اپالو 13 ہے جو 1970ءمیں سمندر میں گر گئی تھی‘ یہ شٹل گرنے کے بعد بوئنگ ٹرپل سیون کی چھت پر باندھ کر ہیوسٹن لائی گئی تھی اور اس کے بعد جہاز اور شٹل دونوں کو ناسا کی مرکزی عمارت کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ‘
سیاح اس جہاز اور شٹل دونوں کے اندر داخل ہو سکتے ہیں‘ جہاز سے ذرا سے فاصلے پر شٹل کے باقی حصے بھی موجود ہیں ‘پوری شٹل چار حصوں میں تقسیم ہوتی ہے‘ پہلے حصے میں چار انجن اور لانچنگ بیس شامل ہوتا ہے‘ یہ بیس شٹل کو کشش ثقل سے نکال کر خلا میں لے جاتا ہے‘ دوسرا حصہ شٹل کو توانائی دیتا ہے‘ تیسرے حصے میں خلائی آلات اور سسٹم لگے ہوتے ہیں جبکہ چوتھے حصے میں خلا نوردوں کا کیپسول ہوتا ہے‘ خلا نورد اس کیپسول میں رہتے ہیں اور یہ کیپسول ہی آخر میں چاند پر اترتا ہے‘
سپیس سنٹر کے دوسرے حصے میں نمائش گاہ‘ خلائی نظام‘ شٹلز کے درمیان رابطے‘ شٹل کے اندر کا ماحول‘ خلا نوردوں کی ٹریننگ کا عمل‘ تھیٹر‘ خلا سے متعلق جدید ترین آلات اور ریستوران ہیں‘ اس حصے میں ایسی ویڈیو گیمز بھی شامل ہیں جن کے ذریعے سیاح بھی خلائی سسٹم کا حصہ بن سکتے ہیں اور سپیس سنٹر کا تیسرا حصہ ٹرامز ہیں‘ یہ ٹرامز بلیو اور ریڈ کہلاتی ہیں‘ ریڈ ٹرام سیاحوں کو اس کنٹرول روم میں لے جاتی ہے جہاں سے سارے اپالو مشنز کنٹرول ہوتے تھے‘
یہ کنٹرول روم خلائی سائنس کی مقدس ترین جگہ ہے‘ خلائی سائنس کے طالب علم اس کمرے کی اتنی ہی عزت کرتے ہیں جتنی عزت پادری ویٹی کن سٹی کو دیتے ہیں جبکہ بلیو ٹرام سیاحوں کو خلا نوردوں کے اس سنٹر میں لے جاتی ہے جہاں کشش ثقل کو صفر کر کے انہیں خلا میں چلنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے‘ ہم نے سب سے پہلے ریڈ لائین ٹرام لی‘ ٹرام میں دو سو کے قریب سیاح سوار تھے‘ ٹرام کھلے میدانوں اور مختلف لیبارٹریوں کے قریب سے ہوتی ہوئی کنٹرول روم تک پہنچ گئی‘
وہ لوہے کی تین منزلہ عمارت تھی‘ آخری فلور پر سینما جیسا ایک ہال تھا‘ کرسیوں کی آٹھ قطاریں لگی تھیں‘ آخری قطار کے سامنے شیشے کی دیوار تھی‘ دیوار کی دوسری طرف کنٹرول روم تھا‘ یہ کنٹرول روم اور یہ تھیٹر 1966ءمیں بنا اور یہ اب تک جوں کا توں ہے‘ تھیٹر کی کوئی چیز تبدیل نہیں ہوئی حتیٰ کہ فون اور کارپٹ بھی پرانا ہے‘ ناسا نے کنٹرول روم کےلئے 1965-66ءمیں کمپیوٹر ایجاد کرایا تھا‘ کنٹرول روم کے نیچے کمرے کمرے جتنے آٹھ بڑے کمپیوٹر ہیں‘
یہ آٹھ کمپیوٹر مل کر صرف 9 جی بی کا ڈیٹا سٹور کر سکتے ہیں‘ کنٹرول روم کی دیوار پر امریکا کا وہ جھنڈا بھی لگا ہے جو نیل آرم سٹرانگ نے 24 جولائی 1969ءکو چاند پر لہرایا تھا‘ اس کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بنوائی تھی اور اسے لپیٹ کر واپس ہیوسٹن لے آیا تھا‘ گائیڈ نے بتایا ہالی ووڈ نے اپالو 13 پر فلم بنانے سے قبل اس پورے کنٹرول روم کی پیمائش لی اور بعد ازاں سٹوڈیو میں اصل کنٹرول روم جیسا اور جتنا سیٹ لگایا‘ گائیڈ نے بتایا امریکا کے نصف درجن صدر اور ملکہ برطانیہ اسی تھیٹر میں پہلی قطار کی کرسیوں پر بیٹھی اور یہاں سے خلا سے رابطے کا پورا عمل دیکھا‘
ہم نے پہلی قطار کی کرسیوں کی طرف دیکھا‘ وہ کرسیاں بھی جوں کی توں تھیں اور ان کے سامنے ”ریزرو“ کی چٹیں لگی تھیں‘ گائیڈ نے بتایا ”یہ کنٹرول روم ہمارا قومی ورثہ ہے اور ہم امریکی اپنے تمام ورثوں سے بڑھ کر اس کی عزت کرتے ہیں“ ہم کنٹرول روم کے بعد خلائی شٹل کی نمائش گاہ میں آئے‘ ناسا نے عام پبلک کےلئے پوری شٹل رکھی ہوئی ہے‘ آپ شٹل کے تمام حصوں کا معائنہ بھی کر سکتے ہیں اور ان کے ساتھ تصاویر بھی بنوا سکتے ہیں‘ ہم وہاں سے ”مین ہال“ میں پہنچے‘
ہال کے ایک حصے میں شٹل کے اندرونی سسٹم تھے‘ ہم اس حصے کے مختلف کونوں میں جاتے تھے اور آڈیو‘ وڈیوز اور تصاویر کے ذریعے شٹل کے مختلف حصے اور سسٹم سمجھتے جاتے تھے‘ خلا نوردوں کو تیار کیسے کیا جاتا ہے‘ یہ لوگ ٹریننگ کے کس کس عمل سے گزرتے ہیں‘ شٹل کے اندر کا ماحول کیسا ہوتا ہے‘ خلا نورد سوتے کیسے ہیں‘ یہ جاگتے کس وقت ہیں‘ یہ کیا کھاتے اور کیا پیتے ہیں‘ خلا نوردوں کا واش روم اور غسل خانہ کیسا ہوتا ہے‘
یہ صفر کشش ثقل کے ساتھ چلتے اور ایک دوسرے سے گفتگو کیسے کرتے ہیں‘ یہ زمین سے ہزاروں کلو میٹر دور خلا میں ورزش کیسے کرتے ہیں‘ یہ کپڑے کون سے پہنتے ہیں‘ شٹل میں آکسیجن اور پانی کہاں سے آتا ہے اور یہ لوگ چاند کی زمین پر پاﺅں کیسے رکھتے ہیں‘ یہ وہاں ٹہلتے کیسے ہیں اور یہ چاند سے زمین پرواپس کیسے آتے ہیں ‘ یہ تمام معلومات وہاں موجود تھیں‘ خلائی شٹل اور بوئنگ ٹرپل سیون تک راستہ بھی اسی ہال سے نکلتا ہے‘ ہال کے ساتھ خلا نوردوں کا تھیٹر بھی ہے‘
سیاح اس تھیٹر میں نوجوان خلا نوردوں کے ساتھ ملاقات کر سکتے ہیں‘ خلا نورد سیاحوں کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں‘ ناسا سپیس سنٹر کے اس حصے میں تھیٹر بھی ہے‘ اس تھیٹر میں وسیع و عریض سکرین پر ناسا اور خلائی مسافرت سے متعلق فلمیں چلائی جاتی ہیں‘ ہم نے اس تھیٹر میں شو بھی دیکھا‘ یہ ایک شارٹ ڈاکومنٹری فلم تھی‘ یہ فلم ناسا کے ان غیر معروف سائنس دانوں‘ کنٹرول رومز کے سابق افسروں اور کمیونی کیشن کے ان ماہرین پر بنائی گئی تھی جن کی مدد سے انسان چاند پر پہنچا‘
ان تمام لوگوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد بڑھاپے میں دوبارہ کنٹرول روم لایا گیا‘ انہیں ان کی کرسیوں پر بٹھایا گیا اور ان کے تجربات ریکارڈ کئے گئے‘ ان کے پرانے کلپس بھی ساتھ ساتھ چلائے گئے‘ ان لوگوں کی گفتگو میں کئی ایسے نازک موڑ آئے جب حاضرین کےلئے آنسو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ناسا کا وزٹ چشم کشا تھا‘ یہ سنٹر جدید ترین ٹیکنالوجی کا حساس ترین مرکز ہے‘ آپ امریکا کا کمال دیکھئے اس نے یہ مرکز بھی پبلک کےلئے عام کر رکھا ہے‘ میں تیسری دنیا کا عام صحافی ٹکٹ لے کر سنٹر میں داخل ہوا اور امریکا کے سارے ”خلائی راز“ لے کر واپس آ گیا‘ مجھے کسی نے نہیں روکا‘
سنٹر میں سکولوں کے ننھے بچے بھی تھے اور گھریلو خواتین بھی‘ امریکا نے جدید ترین ٹیکنالوجی تمام لوگوں کےلئے عام کر رکھی ہے‘ ہم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘ ہمیں کہوٹہ پلانٹ‘ میزائل پروگرام‘ ہیوی مکینیکل فیکٹری‘ جے ایف تھنڈر طیاروں کی ورکشاپ اور الخالد ٹینکوں کی فیکٹری پبلک کےلئے عام کر دینی چاہیے‘ ہمیں تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم کے بجلی گھر بھی عوام کےلئے کھول دینے چاہئیں‘ پاکستان کے نوجوان اور سکول کے بچے آئیں‘ یہ مراکز‘ فیکٹریاں اور پلانٹ دیکھیں اور ملک کے ان ہیروز کو خراج تحسین پیش کریں جنہوں نے ہمارے آج کےلئے اپنا کل قربان کر دیا تھا‘
جو ہماری راتوں کی نیند کےلئے اپنی زندگی میں رت جگے بوتے رہے‘ جنہوں نے غربت‘ بجٹ کی کمی اور نامساعد حالات کے باوجود پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی نیوکلیئر پاور بنا دیا‘ میرا حکومت سے سوال ہے ہم یہ تجربہ گاہیں‘ یہ سنٹر عوام کےلئے کیوں نہیں کھولتے؟ ہم آج بھی اس جگہ پر کیوں کھڑے ہیں جس میں نہر کے پل پر نوٹس لگا ہوتا ہے ”خبردار یہاں تصویر بنانا منع ہے“ ہم کب ”گرواپ “ہوں گے‘ ہم کب ناسا کی طرح اپنے ادارے عوام کےلئے عام کریں گے؟میں یہ سوال لے کر امریکا سے واپس آگیاہوں۔