آپ سکیم ملاحظہ کریں۔بھارت سیاچین سے کراچی تک ہمارے پورے مشرقی بارڈر پر موجود ہے‘ ہماری سرحد کے ساتھ بھارت کی دس چھاﺅنیاں ہیں‘ یہ چھاﺅنیاں ہر وقت تیار رہتی ہیں‘ بھارت نے ان چھاﺅنیوں کو کمک دینے کےلئے بھی تمام بندوبست کر رکھے ہیں‘ یہ ہر سال دو سال بعد کولڈ سٹارٹ اور ہاٹ سٹارٹ کی مشقیں کرتا رہتا ہے‘ بھارت کا دفاعی بجٹ 27 کھرب 40 ارب روپے ہے‘ اس نے 2017-18 ءکے بجٹ
میں10فیصداضافہ کر دیا‘ یہ بجٹ ہمارے کل بجٹ سے سات گنازیادہ ہے‘ ہم نے 70برسوں میں بھارت کے ساتھ چار جنگیں لڑیں‘ ہمیں بھارت کی وجہ سے ایٹمی پروگرام پر اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑے‘ ہم بھارت کی وجہ سات دہائیوں سے اپنا پیٹ کاٹ کر دفاع پر بھاری رقم خرچ کر رہے ہیں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا محاذ بھی مسلسل سلگ رہا ہے‘ یہ محاذ مستقبل قریب میں بھی سلگتا رہے گا‘ ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا بھارت نے ہمیں ستر برسوں میں برداشت کیا اور نہ ہی یہ ہمیں آنے والے دنوں میں کرے گا‘ ہم ان کے نظریئے کے خلاف ہیں‘ ہم ان کی آن‘ ان کے وجود کے سامنے چیلنج ہیں اور یہ ہمیں کسی قیمت پر برداشت نہیں کرے گا‘ بھارت اپنی 9 ریاستوں کو ”آپ پاکستان کا حشر دیکھ لیں“ کا ڈراوا دے کر اپنے ساتھ جوڑ ے بیٹھا ہے‘ اگر پاکستان قائم رہتا ہے‘ یہ اگر ترقی کر جاتا ہے تو بھارت کے اندر 9 نئے پاکستان بن جائیں گے اور یہ اس کےلئے قابل قبول نہیں ہو گا لہٰذا یہ ہم پر حملہ آور رہا اور یہ حملہ آور رہے گا۔یہ مشرقی سرحد کی صورت حال تھی‘ ہم اب مغربی سرحد کی طرف آتے ہیں‘ ہمارے مغرب میں دو ملک ہیں‘ افغانستان اور ایران‘ یہ دونوں 70 سال ہمارا دفاع رہے‘ ایران ہمارا دوست تھا‘ شاہ ایران پاکستان کو اپنا دوسرا گھر کہتے تھے‘ یہ پاکستان آنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے‘ امام خمینی کے انقلاب کے بعد بھی ایران کے پاکستان سے
دوستانہ تعلقات رہے‘ پاکستان میں چار کروڑ شیعہ آباد ہیں‘ یہ کل آبادی کا20 فیصد بنتے ہیں‘ یہ 20فیصد لوگ بھی ایران اور پاکستان کے درمیان بانڈ ہیں‘ ایران اور پاکستان کے درمیان تاریخ کے بے شمار دریا بھی بہتے ہیں‘ خاندان غلاماں کے ادوار ہوں یا پھر مغلوں کا دور ہندوستان کے بے شمار حکمران ایران سے تعلق رکھتے تھے یا پھر یہ سنٹرل ایشیا‘ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران کے حکمران بھی تھے‘ فارسی زبان ہزار سال تک ہندوستان کی قومی زبان رہی اور پاکستان کے چار صوبوں میں آٹھ سو سال نو روز کا تہوار منایا جاتا رہا چنانچہ ایران پاکستان کا قدرتی دفاع تھا‘
یہ صدیوں کے وہ تعلقات تھے جن کی وجہ سے پاکستان نے 60 سال ایران کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگائی اور نہ چیک پوسٹیں بنائیں‘ لوگ چلتے چلتے ادھر سے ادھر آجاتے تھے اورادھر سے گھومتے گھومتے ادھر چلے جاتے تھے‘ افغانستان پاکستان کا دوسرا قدرتی دفاع تھا‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2430کلو میٹر لمبا بارڈر ہے‘ یہ بارڈر چترال کی واہ خان پٹی سے شروع ہوتا ہے اور چمن تک جاتا ہے‘ یہ بارڈر ڈیورنڈ لائین کہلاتا ہے‘ یہ لائین برطانوی ڈپلومیٹ مورٹیمرڈیورنڈ نے 1893ءمیں کھینچی تھی‘
پاکستان نے قیام کے بعد اس لائین کو من وعن تسلیم کر لیا‘ ہماری قبائلی ایجنسیاں اس سرحد کی محافظ تھیں‘ پاکستان 70 سال افغانستان کی جغرافیائی اور نظریاتی حفاظت کرتا رہا‘ یہ ”لینڈ لاکڈ“ ملک ہے‘ اس کی ایک سائیڈ پر سوویت یونین تھا‘ دوسری سائیڈ پر چین اور تیسری سمت میں ایران‘ یہ تینوں ملک افغانستان کے مخالف تھے‘ پاکستان نے اس صورتحال میں افغانستان کی بھرپور مدد کی‘ ہم نے اسے ”ٹرانزٹ ٹریڈ“ کی سہولت بھی دی اور ہم دہائیوں تک اسے آٹا‘ دالیں‘ سیمنٹ اور ادویات بھی فراہم کرتے رہے‘ روسی حملے کے بعد پاکستان نے 50 لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دی‘
ہم نے افغانستان کو روس سے بچانے کےلئے دس سال تک جنگ بھی لڑی‘ ہم نے اس جنگ میں اپنا بیڑا غرق کر لیا لیکن افغانستان کا ساتھ نہ چھوڑا‘ بھارت ہمارے ان دونوں دفاع سے واقف تھا‘ یہ جانتا تھا افغانستان اور ایران ہماری پیٹھ ہیں اور چین بازو چنانچہ اس نے ایک لمبی پالیسی بنائی اور آہستہ آہستہ ہماری پیٹھ ننگی کرنا شروع کر دی‘ را نے افغانستان اور ایران میں اپنے ٹھکانے بنائے‘ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سرمایہ کاری کی‘ میڈیا کو اپنے ہاتھ میں لیا‘
افغانستان اور ایران کے ساتھ تجارتی معاہدے کئے‘ ان کے طالب علموں کو اپنی یونیورسٹیوں میں داخلے دیئے‘ الیکشنوں میں سرمایہ کاری کی‘ اپنی مرضی کی حکومتیں تشکیل دیں‘ بیورو کریسی کو اپنے کنٹرول میں کیا اور دونوں ملکوں کی فوجوں کو ٹریننگ دی‘ یہ کام مکمل ہو گیا تو بھارت نے کلبھوشن یادیو جیسے جاسوسوں کے ذریعے پاکستان کے اندر افراتفری پھیلانا شروع کر دی‘ کراچی کے حالات خراب کئے گئے‘ طالبان کو رقم‘ بارود اور خودکش حملوں کی ٹریننگ دی گئی‘
شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کےلئے سرمایہ خرچ کیا گیا یوں ہمارے اندرونی حالات خراب ہونے لگے‘ یہ حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ ہم ملک کے اندر فوجی آپریشن پر مجبور ہو گئے‘ سوات آپریشن ہوا‘ کراچی آپریشن شروع ہوا‘ ضرب عضب اور ردالفساد کا آغاز ہوا اور فاٹا میں آپریشن ہوئے‘ ہماری فوج جب داخلی محاذوں میں مصروف ہو گئی تو بھارت نے افغانستان اور ایران کی سرحدوں کی طرف سے بھی پاکستان پر دباﺅ بڑھانا شروع کر دیا‘ آپ 8 سال کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیجئے‘
آپ کو ان آٹھ برسوں میں افغانستان اور ایران کی سرحدیں ایکٹو نظر آئیں گی‘ ہماری پیٹھ پر 8 سال سے گولہ باری بھی ہو رہی ہے اور سرحدی خلاف ورزی بھی۔آپ تازہ ترین واقعات بھی ملاحظہ کیجئے‘ مئی میں ایران اور افغانستان دونوں سرحدوں سے بری خبریں آنے لگیں‘ پانچ مئی کی صبح افغان فوج نے چمن کے قریب پاکستان کے دو گاﺅں کلی لقمان اور کلی جہانگیر پر قبضہ کر لیا‘ یہ دونوں گاﺅں منقسم ہیں‘ ان کا ایک حصہ افغانستان میں ہے اور دوسرا پاکستان میں‘
پاک فوج نے افغان حکومت کو اطلاع دے دی تھی پاک فوج کے جوان چار اور پانچ مئی کو مردم شماری کے سلسلے میں ان دونوں گاﺅں کا دورہ کریں گے لیکن افغان فوج نے اس پیشگی اطلاع کے باوجود پاک فوج کے جوانوں اور عام شہریوں پر حملہ کر دیا‘ افغان فوج نے دونوں گاﺅں کے گھروں پر بھی قبضہ کر لیا‘ لڑائی ہوئی اور لڑائی میں افغانستان کے 50 فوجی مارے گئے جبکہ پاکستان کی طرف سے 9 لوگ شہید ہو گئے‘ ان میں پاک فوج کے دواہلکار بھی شامل ہیں‘
یہ لڑائی افغانستان اور پاکستان کو جنگی صورت حال تک لے آئی‘ ایران نے بھی دو روز قبل پاکستان کے اندر گھس کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی‘ یہ دھمکی ایران کے آرمی چیف جنرل محمد حسین باقری نے دی‘ ایران کا دعویٰ ہے جیش العدل نام کے ایک دہشت گرد گروپ نے 26 اپریل کو ایرانی صوبے سیستان میں پاکستانی سرحد کے قریب دس سرحدی گارڈز قتل کر دیئے تھے‘ یہ لوگ پاکستان میں پناہ گاہیں بنا کر بیٹھے ہیں اور یہ یہاں سے ایران کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘
ایران کی دھمکی اور افغانستان کا حملہ معمولی واقعات نہیں ہیں‘ آپ اگر ان دونوں واقعات کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو ان کے پیچھے بھارت نظر آئے گا‘ بھارت نے مسلسل 15 سال ایران اور افغانستان میں کام کیا‘ یہ اس دوران پاکستان کو مذاکرات اور مسئلہ کشمیر کے حل کا لولی پاپ دیتا رہا‘ بھارت میاں نواز شریف‘ جنرل پرویز مشرف اور یوسف رضا گیلانی کا پورا دور پاکستان سے مذاکرات مذاکرات کھیلتا رہا اور اس دوران افغانستان اور ایران میں اپنی جڑیں مضبوط کرتا رہا‘
آپ اگر ذرا سی گہرائی میں جا کر تجزیہ کریں تو آپ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں را کا بڑا دفتر اور اس دفتر میں طالبان کی لیڈر شپ کی آمدورفت دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ آپ کو اسی طرح افغانستان میں بھی بھارتی کمپنیوں کے پراجیکٹس پریشان کر دیں گے‘ افغانستان کے زیادہ ترقیاتی کام بھارتی کمپنیوں کے پاس ہیں‘ یہ کمپنیاں اور بھارتی سرکار افغانوں کو اس پاکستان کا جانی دشمن بنا چکی ہیں جس نے 35سال افغانوں کو پناہ بھی دی اور انہیں پال پوس کر جوان بھی کیا۔ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں بھارت اس مشق سے فائدہ کیا اٹھانا چاہتا ہے‘
بھارت دراصل پاکستانی فوج کو تھکانا چاہتا ہے‘ ہم بھارت کی وجہ سے اپنی فوج کا بڑا حصہ ملک کے اندر لگا چکے ہیں‘ ہماری فوج ملک کے اندر دہشت گردوں کی تلاش میں دوڑ رہی ہے‘ یہ کشمیر کی ورکنگ باﺅنڈری اور ایل او سی پر بھی بیٹھی ہے‘ یہ مشرقی سرحدوں کی حفاظت بھی کر رہی ہے‘ یہ کراچی میں بھی کام کر رہی ہے‘ یہ چاروں صوبوں میں بھی سیکورٹی ڈیوٹی دے رہی ہے‘ یہ فاٹا میں بھی لڑ رہی ہے اور یہ اب افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر بھی توجہ دے رہی ہے‘
بھارت جانتا ہے دنیا کی بہترین سے بہترین فوج بھی یہ صورتحال زیادہ عرصہ برداشت نہیں کر سکتی‘ یہ تھک جاتی ہے اور پاکستانی فوج جلد یا بدیر تھک جائے گی اور بھارت اس وقت کا انتظار کر رہا ہے‘ یہ ہم پر اس وقت ایک بڑا حملہ کرے گا اور یہ اس کی اصل سکیم ہے لیکن کیا ہم دشمن کی یہ سکیم سمجھ رہے ہیں‘ میرا خیال ہے نہیں کیونکہ ہم اگر سمجھتے ہوتے تو آج پاکستان میں سول اور ملٹری کا پھڈا نہ ہوتا‘ آج میاں نواز شریف اور جنرل باجوہ ایک صفحے پر ہوتے‘
ہمیں ماننا پڑے گا سول اور ملٹری کا پھڈا ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور پاکستانی لیڈر اگر ملک کو چلانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں حالات کی نزاکت سمجھنا ہو گی ورنہ دوسری صورت میں بھارت ہمیں چاروں اطراف سے گھیر کر مارنے کی پریکٹس کر رہا ہے‘ ہمیں جاگنا ہوگا‘ ہمیں سنبھلنا ہوگا۔نوٹ:میں نے 11اگست 2016ءکو”پاکستان خطرے میں ہے“کے عنوان سے بھارتی عزائم پر ایک کالم تحریر کیا تھا‘ میں قوم کو جگانے کےلئے یہ کالم کل دوبارہ آپ کے حضور پیش کروںگا‘ شاید قوم جاگ جائے۔