میری طارق فاطمی صاحب سے صرف ایک ملاقات ہے‘ وزیراعظم میاں نواز شریف 18 جنوری 2016ءکو سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کےلئے ریاض اور تہران کے دورے پر گئے‘ میں بھی اس وفد میں شامل تھا‘ روانگی سے قبل چک لالہ ائیر پورٹ کے لاﺅنج میں طارق فاطمی صاحب سے ملاقات ہوئی‘ میں نے ان سے پوچھا ”کیا وزیراعظم ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے میں کامیاب ہو جائیں گے“ طارق فاطمی
مسکرائے اور نرم آواز میں بولے ”ہاں ہو سکتا ہے لیکن 632ءسے آج تک کوئی شخص یہ کارنامہ سرانجام نہیں دے سکا“ میں نے پوچھا ”632ءسے کیوں؟“ بولے ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 8جون 632ءکو انتقال فرمایا تھا‘ شیعہ اور سنی کی بنیاد اس دن پڑی‘ یہ دونوں آج تک اکٹھے نہیں ہو سکے‘ شاید ہم اس تاریخی کارنامے میں کامیاب ہو جائیں“ لاﺅنج میں موجود تمام لوگ قہقہہ لگانے پر مجبور ہو گئے۔طارق فاطمی بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں‘ ڈھاکہ سے تعلق تھا‘ والد پروفیسر اور دانشور تھے‘ فاطمی صاحب نے ابتدائی سال علم‘ ادب اور کتابوں میں بسر کئے‘ جوانی میں فارن سروس جوائن کی اور کمال کر دیا‘ یہ دو بار ماسکو میں تعینات رہے‘ نیویارک‘ واشنگٹن اور بیجنگ میں ذمہ داریاں نبھائیں‘ یہ زمبابوے میں سفیر رہے‘ یہ امریکا‘ اردن‘ بیلجیئم اور لکسمبرگ میں پاکستان کے سفیر رہے‘ یہ آخر میں یورپین یونین میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے‘ یہ 2004ءمیں ریٹائر ہو گئے‘ یہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے دوران امریکا اور یورپ ڈویژن کے ایڈیشنل سیکرٹری تھے‘ یہ بنگالی‘ اردو‘ انگریزی اور روسی چار زبانوں کے ماہر ہیں‘ یہ روسی زبان اردو کی طرح بولتے ہیں‘ فرنچ اور جرمن بھی سمجھتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں کمال یادداشت سے نواز رکھا ہے‘ آپ کسی شخص یا واقعے کا نام لیں یہ تاریخ‘ لوگوں کے نام اور واقعے کا پورا پس منظر بیان کردیں گے‘ ٹائم مینجمنٹ کے ماہر ہیں‘ یہ صبح پانچ بجے اٹھتے ہیں‘ جاگنگ اور واک کرتے ہیں اور ناشتہ کر کے سات
بجے دفتر پہنچ جاتے ہیں‘ یہ سٹاف کے آنے سے پہلے دنیا کے تمام بڑے نیوز پیپرز‘ پاکستان کے تمام اخبارات‘ نیوز سمریاں‘ پاکستانی سفارت خانوں کے پیغامات اور گزشتہ دن کی ساری فائلیں پڑھ لیتے ہیں‘ یہ دفتر کھلنے سے پہلے دنیا کے تمام اہم دارالحکومتوں میں اپنے سفیروں سے ٹیلی فون پر بات بھی کر چکے ہوتے ہیں اور یہ دن بھر کی اہم ترین معلومات بھی یاد کر چکے ہوتے ہیں‘ یہ اس کے بعد سارا دن دفتر اور پرائم منسٹر ہاﺅس میں رہتے ہیں اور شام کو جب وزارت خارجہ کے تمام لوگ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں یہ اس وقت بھی دفتر میں کام کر رہے ہوتے ہیں‘
طارق فاطمی پر پوری زندگی کرپشن کا کوئی چارج نہیں لگا‘ پوری سروس ایمانداری کے ساتھ گزاری‘ فارن سروس میں غیر ملکی تحفے کرپشن کا آسان ذریعہ ہیں‘ پاکستان کا جوبھی وفد دور ے پر باہر جاتا ہے یا کوئی مہمان پاکستان آتا ہے تو تحفے دیئے اور لئے جاتے ہیں‘ پاکستان کے قانون کے مطابق یہ تحائف ریاست کی امانت ہوتے ہیں‘ صدر اور وزیراعظم سے لے کر وزیر‘ مشیر اور سفیر تک تمام عہدےدار یہ تحائف ”توشہ خانہ“ میں جمع کرانے کے پابند ہوتے ہیں‘
یہ لوگ اگر یہ تحائف اپنے پاس رکھنا چاہیں تو یہ قیمت ادا کر کے یہ گفٹ توشہ خانہ سے خرید سکتے ہیں‘ طارق فاطمی ملک کے ان چند لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے نہایت ایمانداری سے اپنا ہر تحفہ توشہ خانہ میں جمع کرایا‘ یہ ہر گفٹ کی رنگین تصویر اتارتے ہیں‘ یہ تصویر اپنے ریکارڈ میں رکھتے ہیں اور تحفہ وزارت میں جمع کرا دیتے ہیں‘ فاطمی صاحب کے ریکارڈ میں ایسی سینکڑوں تصویریں موجود ہیں ‘ یہ تصویریں ان کی قانون پسندی اور ایمانداری کی دلیل ہیں۔یہ شخص 1971ءکے بعد بنگلہ دیش جا سکتا تھا لیکن یہ پاکستان میں رہا‘ اس نے پوری زندگی پاکستان کی عزت اور حرمت پر حرف نہیں آنے دیا‘
یہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تشکیل اور دھماکوں کے دوران بہت اہم اور حساس پوزیشنوں پر کام کرتا رہا لیکن اس نے کوئی انفارمیشن ”لیک“ نہ ہونے دی‘ یہ ”سرد جنگ“ کے دوران بھی اہم عہدوں پر فائز رہا‘ پاکستان اس وقت امریکا کا بہت بڑا اتحادی تھا‘ یہ اس وقت عام معمولی سی معلومات ”لیک“ کر کے سوویت یونین کا ہیرو بن سکتا تھا‘ یہ افغان جنگ کے دوران بھی اہم ترین پوزیشنوں پر رہا‘ یہ اس جنگ کے دوران بھی ایک خبر ”لیک“ کر کے پوری دنیا میں مشہور ہو سکتا تھا اور یہ پچھلے چار برسوں میں بھی بہت حساس اور اہم ملاقاتوں کا حصہ رہا‘
یہ اس وقت بھی چند فقرے لیک کر کے دنیا کی توجہ حاصل کر سکتا تھالیکن طارق فاطمی کے 47 سال کے کیریئر میں کوئی ایک واقعہ‘ کوئی ایک ایسا لمحہ نہیں آیا جب کوئی بیان‘ کوئی لیک ان سے منسوب ہوئی ہو‘ یہ پوری زندگی سچے پاکستانی‘ پروفیشنل ڈپلومیٹ اور ایماندار انسان رہے‘ کام کیا‘ کتابیں پڑھیں‘ واک کی اور اپنی ذات میں مطمئن رہے لہٰذا میں دل سے یہ سمجھتا ہوں ایسے شخص کو ڈان لیکس میں پھنسانا‘ اسے قربانی کا بکرا بنانا اور اسے بغیر کسی چارج‘ بغیر کسی ثبوت اور بغیر کسی الزام کے فارغ کر دینا سراسر زیادتی ہے اور حکومت اس زیادتی کی ذمہ دار ہے‘ میاں نواز شریف طارق فاطمی کو 20 سال سے جانتے ہیں‘
یہ چار سال وزیراعظم کے ہر سفر میں ان کے ساتھ بھی رہے‘ یہ وزیراعظم سے روزانہ ملاقات بھی کرتے تھے اور یہ انہیں بین الاقوامی امور پر گائیڈ بھی کرتے تھے چنانچہ وزیراعظم فاطمی صاحب کی ایمانداری ‘ پروفیشنل ازم اور دانش مندی تینوں کے بخوبی واقف ہیں‘ میاں صاحب جانتے ہیں یہ طارق فاطمی تھے جنہوں نے حکومت کو سمجھایا ہم نے امریکا کے سامنے لیٹ لیٹ کر اپنے ستر سال برباد کر دیئے ہیں‘ ہمیں اب چین اور روس کی طرف بھی دیکھنا چاہیے‘
یہ طارق فاطمی تھے جن کی کوششوں سے روس اور پاکستان کے درمیان موجود پچاس سال پرانی برف پگھل گئی‘ دونوں ملکوں کے درمیان رابطے استوار ہو گئے اور فوجی مشقیں شروع ہو گئیں اور یہ طارق فاطمی تھے جو چین کو پاکستان کے اتنے قریب لے کر آئے کہ چین پاکستان میں 60 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر مجبور ہو گیا لہٰذا وزیراعظم بخوبی جانتے ہیں طارق فاطمی بے ایمان ہیں اور نہ ہی یہ ڈان لیکس کے ذمہ دار ہیں‘ وزیراعظم یہ بھی جانتے ہیں یہ طارق فاطمی کے ساتھ زیادتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے وزیراعظم نے پھر جانتے بوجھتے یہ زیادتی کیوں کی؟
شاید اقتدار واقعی بہت ظالم ہوتا ہے‘ بادشاہ تخت بچانے کےلئے اپنے بھائیوں‘ اپنے بچوںتک کی قربانی دے دیتے ہیں اور یہ تو صرف ایک مشیر تھے چنانچہ یہ قربان ہو گئے‘ یہ وزیراعظم کو پانچ سال پورے کرانے کےلئے بکرا بن گئے۔ڈان لیکس کی رپورٹ ابھی جاری نہیں ہوئی‘ یہ عوام کے سامنے نہیں آئی لیکن جہاں تک غیر مصدقہ معلومات کا تعلق ہے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کسی شخص کو ڈان لیکس کا ذمہ دار قرار نہیں دیا‘ کمیشن کو طارق فاطمی کے خلاف بھی کوئی ثبوت نہیں ملا اور یہ بھی حقیقت ہے طارق فاطمی کے ڈان اور ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے‘
یہ ڈان میں کالم لکھتے تھے لیکن یہ جب پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے تو ظفر عباس نے ان کا کالم بند کر دیا اور یوں دونوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی چنانچہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے یہ اس کشیدگی کی صورت میں ڈان کو خبر کیوں لیک کریں گے؟ کمیشن کو ڈان‘ ظفر عباس‘ سرل المیڈا اور طارق فاطمی کے درمیان کسی قسم کے رابطے کے ثبوت بھی نہیں ملے۔ ”ملزمان“ میں سے بھی کسی نے طارق فاطمی کا نام نہیں لیا اور یہ بھی ثابت نہیں ہو سکا کیایہ خبر واقعی ”سیکورٹی بریچ“ تھی‘ یہ سچی تھی اورکیا یہ واقعی ”لیک“ تھی لہٰذا اس عالم میں طارق فاطمی صاحب کو سزا دینا پاکستان سے محبت کرنے والوں کے ساتھ زیادتی ہے‘
طارق فاطمی ریاست اور حکومت سے اپنا قصور پوچھ رہے ہیں‘ یہ اپنی صفائی بھی دینا چاہتے ہیں‘ یہ ریاست سے ”فیئر ٹرائل“ بھی مانگ رہے ہیں اور یہ اس داغ‘ اس دھبے کے ساتھ گھر بھی نہیں جانا چاہتے لہٰذا میری درخواست ہے ریاست کو انہیں صفائی کا موقع دینا چاہیے‘ حکومت کو انہیں باقاعدہ چارج شیٹ کرنا چاہیے تا کہ یہ اپنی صفائی دے سکیں‘ یہ اپنے خلاف ثبوتوں کا سامنا کر سکیں‘ یہ ان کا مقابلہ کریں اور یہ اگر ٹرائل میں واقعی مجرم پائے جائیں تو آپ انہیں بے شک غدار قرار دے دیں‘
آپ انہیں بے شک الٹا لٹکا دیں لیکن یہ اگر بے گناہ اور معصوم ثابت ہوں تو آپ ان سے معذرت کریں‘ انہیں پوزیشن پر بحال کریں‘ ان کی عزت انہیں واپس کریں اور یہ اس کے بعد بے شک مستعفی ہو کر ایوان اقتدار کو سلام کر جائیں لیکن موجودہ فیصلہ بہرحال ظلم ہے‘ یہ زیادتی ہے۔ہمیں اب یہ سکھا شاہی بھی ختم کرنا ہوگی اور ہمیں ”سزا پہلے دے دیں اور ایف آئی آر بعد میں درج کریں“ جیسی روایات بھی ترک کرنا ہوں گی‘ ہم آخر کتنے لوگوں کو غدار‘ بے ایمان اور کافر قرار دیں گے‘ ہمیں کہیں نہ کہیں تو ٹھہرنا ہو گا‘ ہمیں کہیں نہ کہیں تو فل سٹاپ لگانا ہو گا‘
ہم طارق فاطمی جیسے کتنے بے گناہوں کو عبرت کی نشانی بنائیں گے اور ہم کتنے محب وطن لوگوں کو ذلیل کریں گے‘ ہم نے کبھی سوچا‘ ہم نے کبھی غور کیا؟ شاید نہیںاور شاید ہم کبھی یہ سوچیں گے بھی نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ قومیں جب اچھے اور برے کی تمیز کھو بیٹھتی ہیں تو پھر ان کے پاس غور کرنے کےلئے وقت نہیں ہوتا‘ یہ سوچا نہیں کرتیں اور ہم بڑی مدت سے اچھے اور برے کی تمیز کھو چکے ہیں۔