میں نے ویٹر کی توجہ ڈش نمبر 65 کی طرف مبذول کرائی اور مسکرا کر پوچھا ”یہ کیسی رہے گی“ ویٹر نے جھک کر مینو کارڈ دیکھا اور مسکرا کر بولا ” یہ رائسینیا ہے‘ یہ ہمارے ریستوران کی مشہور ترین ڈش ہے‘ یہ آپ کےلئے پرفیکٹ رہے گی“ وہ اس کے بعد سیدھا ہوا اور نہایت شستہ انگریز میں ڈش کے اجزاءاور اس کی تیاری کے مراحل پر روشنی ڈالنے لگا‘
اس نے بتایا ڈش کے چاول برازیل کے قدرتی کھیتوں میں قدرتی کھاد میں پروان چڑھتے ہیں‘ زیرہ چین کے دور دراز علاقوں سے منگوایا جاتا ہے‘ دھنیا‘ دالیں اور نمک انڈیا سے لایا جاتا ہے‘ یہ سارے اجزاءفرانس کے نیم گرم چشموں کے پانی میں دھوئے جاتے ہیں‘ یہ جاپانی مٹی کی ہانڈی میں ڈالے جاتے ہیں‘ ان میں ملائیشیا کا کوکونٹ آئل ملایا جاتا ہے‘ ڈش کو ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے اور یہ کھانا آخر میں برطانوی پلیٹ میں ڈال کر میرے سامنے رکھا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔میں اس نجیب الطرفین ڈش کے پس منظر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ مجھے محسوس ہوا میں نے ڈش نمبر65 پر انگلی رکھ کر اپنی زندگی کا بہترین فیصلہ کیا‘ میں نے مینو کارڈ فولڈ کر کے ویٹر کے حوالے کیا‘ لمبی سانس لی اور کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا‘ ریستوران گاہکوں سے بھرا ہوا تھا‘ میں لوگوں کو کھانا کھاتے‘ گپ شپ کرتے اور قہقہے لگاتے دیکھ کر خوش ہو رہا تھا‘ میرا آرڈر بیس منٹ میں تیار ہونا تھا‘ میں یہ وقت دائیں بائیں دیکھ کر گزارتا رہا‘ میں نے بڑی مشکل سے وقت پورا کیا‘ مجھے آخر میں دو ویٹر اپنی طرف آتے دکھائی دیئے‘ ایک نے چاندی کی بڑی سی ٹرے اٹھائی ہوئی تھی اور دوسرا میرے آرڈر کو پروٹوکول دے رہا تھا‘ پروٹوکول آفیسر نے مسکرا کر میری طرف دیکھا‘
میرے سامنے پڑی پلیٹ اٹھائی‘ جگہ بنائی‘ نہایت عزت کے ساتھ ٹرے میں رکھی پلیٹ اٹھائی اور میرے سامنے رکھ دی‘ میں اشتیاق کے عالم میں پلیٹ پر جھک گیا‘ دونوں ویٹرز نے مسکرا کر میری طرف دیکھا ”انجوائے یور میل سر“ کہا اور لیفٹ رائیٹ کرتے ہوئے واپس چلے گئے‘ میری پلیٹ کے ایک کونے میں کھیرے کی دو قاشیں پڑی تھیں‘
اس سے ایک انچ کے فاصلے پر سبز دھنیے کی چٹنی تھی اور اس چٹنی سے دو انچ کے فاصلے پر چار چمچ کے برابر چاولوں کی ڈھیری تھی‘ میں نے چھری کے ساتھ وہ ڈھیری کھولی‘ چاولوں سے کانٹا بھرا‘ وہ کانٹا منہ میں ڈالا اور ساتھ ہی میری ہنسی نکل گئی‘ اللہ جھوٹ نہ بلوائے وہ رائسینیا پھیکی کھچڑی تھا اور میں کھچڑی کی ان چار چمچوں کےلئے بیس منٹ انتظار کرتا رہا تھا‘ میں نے لمبا سانس لیا‘ کھیرے کی قاش منہ میں رکھی‘
کوکا کولا کا لمبا گھونٹ بھرا‘ کھچڑی (معذرت چاہتا ہوں) رائسینیا کو زہر مار کیا اور ویٹر کو بل لانے کا اشارہ کر دیا‘ و ہ بل کی بجائے ڈیزرٹس کا مینو کارڈ لے آیا اور مجھے انوکھی انوکھی سویٹ ڈشز چیک کرنے کا مشورہ دینے لگا‘ میں نے نہایت شائستگی کے ساتھ معذرت کر لی‘ وہ مایوس ہو کر واپس گیا اور بل لے آیا‘ میں نے بل کو غور سے دیکھا‘
مجھے کوکا کولا کا ایک گلاس پانچ سو روپے میں پڑا اور چار چمچ پھیکی کھچڑی اڑھائی ہزار روپے میں‘ بل میں سروس چارجز اور جی ایس ٹی بھی شامل تھا‘ یہ سب ملا کر پونے چار ہزار روپے بن گئے ‘ میں نے پے منٹ کی اور اپنی سیٹ سے اٹھ گیا‘ ریستوران کے آدھے عملے نے مجھے جھک کر رخصت کیا‘ باوردی دربان نے دروازہ کھولا‘ میری گاڑی پورچ میں آ گئی‘ میں گاڑی میں بیٹھ گیا‘ ریستوران کا بیرونی عملہ بھی میرے سامنے جھک گیا‘ مجھے بڑی عزت کے ساتھ روانہ کیا گیا۔
میں راستے میں سوچنے لگا‘ پونے چار ہزار روپے میں چار چمچ کھچڑی‘ کیا یہ ظلم نہیں؟ہاں یہ ظلم تھا لیکن میں اپنی فطرت کے برعکس اس ظلم پر خاموش رہاں‘ کیوں؟ یہ میرا دوسرا سوال تھا‘ میں منہ پھٹ آدمی ہوں‘ میں کسی بھی فورم پر کوئی بھی بات کہہ سکتا ہوں لیکن میں اس ریستوران میں یہ ظلم چپ چاپ کیوں سہہ گیا؟ میں کھوجتا رہا یہاں تک کہ وجہ کا سرا میرے ہاتھ میں آگیا‘ یہ سب ریستوران کی مارکیٹنگ کا کمال تھا‘
مارکیٹنگ کھچڑی کو دنیا کی بہترین اور مہنگی ڈش بھی بنا سکتی ہے اور اس ڈش کی زد میں آنے والے مظلوموں کے منہ پر ٹیپ بھی لگا سکتی ہے اور مظلوم کے پاس ظلم سہنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا‘ میری ہنسی نکل گئی‘ مجھے ہنسنا چاہیے بھی تھا‘ میں بھول گیا تھا ہم مارکیٹنگ کی اس ایج میں زندہ ہیں جس میں ٹیلی ویژن کا اشتہار یہ فیصلہ کرتا ہے مجھے کون سا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا چاہیے‘
مجھے کس کمپنی کی چائے‘ دودھ‘ چینی‘ انڈے‘ شیمپو‘ صابن‘ ڈٹرجنٹ پاﺅڈر‘ پانی‘ فریج اور اے سی خریدنا چاہیے اور مجھے کس موٹر سائیکل پر بیٹھ کر زیادہ فرحت محسوس ہو گی وغیرہ وغیرہ‘ یہ مارکیٹنگ ہے جو کھچڑی کو رائسینیا‘ آلو کے چپس کو فرنچ فرائز‘ چھلی کو کارن سٹک‘ لسی کو یوگرٹ شیک اور برف کے گولے کو آئس بال بنا دیتی ہے‘ کمپنی اپنی مارکیٹنگ کے زور پر دس روپے کی چیز ہزار روپے میں فروخت کرتی ہے اور گاہک کو اعتراض کی جرا¿ت تک نہیں ہوتی‘
میں یہ بھی بھول گیا تھا‘ یہ مارکیٹنگ صرف کمپنیوں تک محدود نہیں ہوتی‘ مارکیٹنگ کی ضرورت انسانوں اور ملکوں کو بھی ہوتی ہے مثلاً آپ اسامہ بن لادن‘ صدام حسین‘ کرنل قذافی اور جنرل راحیل شریف کی مثال لے لیں‘یہ چاروں مارکیٹنگ کا تازہ ترین ثبوت ہیں‘ امریکا نے دس سال اسامہ بن لادن‘ صدام حسین اور کرنل قذافی کی نیگیٹو مارکیٹنگ کی‘ یہ ان تینوں کو سولائزیشن کےلئے عظیم خطرہ ثابت کرتا رہا یہاں تک کہ پوری دنیا نے انہیں ولن تسلیم کر لیا‘
امریکا نے اس نیگیٹو مارکیٹنگ کی آڑ میں پوری دنیا کا نقشہ‘ پوری دنیا کی فلاسفی بدل دی‘ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر پہنچ گئی لیکن یہ دنیا ”تین عظیم ولن“ کی ہلاکت پر امریکا کےلئے تالیاں بجاتی رہی‘ پاکستان میں بھی تین سال جنرل راحیل شریف کی مارکیٹنگ ہوتی رہی‘ جنرل صاحب نے اپنے دور میں کوئی آپریشن مکمل نہیں کیا‘ ملک میں کراچی سے لے کر وزیرستان اور دھرنے سے لے کر پانامہ تک ان کے تمام آپریشنز کا ملبہ بکھرا پڑا ہے‘
مشاہد اللہ خان اور پرویز رشید آج بھی اپنا جرم پوچھتے پھر رہے ہیں لیکن جنرل راحیل شریف تین سال ہیرو کا سٹیٹس انجوائے کرتے رہے‘ آپ مارکیٹنگ کا کمال دیکھئے لوگ آج بھی ان کے خلاف ایک لفظ نہیں سننا چاہتے‘ آپ بھارت کی مثال بھی لے لیجئے‘ بھارت ممالک کی مارکیٹنگ کا خوفناک ثبوت ہے‘ بھارت کے نیشنل ڈیٹا سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں 2016ءمیں سب سے زیادہ بم دھماکے بھارت میں ہوئے‘
بھارت کی دس ریاستوں چھتیس گڑھ‘ مغربی بنگال‘ مقبوضہ کشمیر‘ کیرالہ‘ منی پور‘ اڑیسہ‘ تامل ناڈو‘ آندھیرا پردیش‘ پنجاب اور ہریانہ میں پچھلے سال 337 بم دھماکے ہوئے‘ یہ تعداد 2015ءکے مقابلے میں 26 فیصد زیادہ تھی‘ 2015ءمیں بھارت میں 268 دھماکے ہوئے تھے ‘ عراق 2016ءمیں دوسرے نمبر پر رہا ‘وہاں 221 دھماکے ہوئے‘ پاکستان کا نمبر تیسرا تھا
یہاں 161 دھماکے ہوئے جبکہ افغانستان 132 دھماکوں کے ساتھ چوتھے‘ ترکی 92 دھماکوں کے ساتھ پانچویں اور تھائی لینڈ 71 دھماکوں کے ساتھ چھٹے نمبر پر رہا‘ بھارت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں دس برسوں سے ہر سال اوسطاً 227 دھماکے ہوتے ہیں لیکن آپ کمال دیکھئے بھارت اس کے باوجود ”شائننگ انڈیا“ ہے ‘ یہ دنیا میں سیاحت‘ موسیقی‘ فلم‘ انڈسٹری اور سپورٹس کا بڑا مرکز ہے‘
وہاں کامن ویلتھ گیمز بھی ہوتی ہیں‘ ورلڈ کپ بھی اور آئی پی ایل بھی‘ بھارت میں میچز کے دوران پورا صوبہ فوج کے حوالے کر دیا جاتا ہے لیکن کوئی انڈیا کی طرف انگلی نہیں اٹھاتا جبکہ تیسرے نمبر پر ہونے باوجود دنیا پاکستان کو خطرناک ترین ملک سمجھتی ہے‘ یہاں 8 سال سے کرکٹ اور سیاحت بند ہیں‘ دنیا کے خوف کا یہ عالم ہے عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے نمائندے دوبئی میں بیٹھ کر پاکستانی حکام سے میٹنگ کرتے ہیں۔
یہ کیا ہے اور یہ کیوں ہے؟ ہم نے کبھی سوچا‘ بھارت دنیا میں سب سے زیادہ بم دھماکوں کے باوجود کیوں شائننگ ہے اور ہم تیسرے نمبر پر ہونے کے باوجود دنیا کا خطرناک ترین ملک کیوں ہیں؟ میرا خیال ہے ہم مارکیٹنگ میں مار کھا رہے ہیں‘ ہمارا پرسیپشن خراب ہے‘ہمیں ہرحال میں مارکیٹنگ کی اچھی ٹیم چاہیے‘ ایک ایسی ٹیم جو ہماری کھچڑی کو رائسینیا بنا دے اور وہ کھچڑی کون سی ہے؟
وہ کھچڑی سپورٹس ہے‘ ہمیں ماننا ہو گا سپورٹس دنیا کی سب سے بڑی ”ہاٹ ڈش“ ہے اور ہم جس دن کرکٹ‘ ہاکی‘ فٹ بال اور سکوائش پر توجہ دیں گے‘ ہم نے جس دن ان چار گیمز میں اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر لیا ہم اس دن دہشت گردی کے باوجود دنیا کی نظروں کا ستارہ بن جائیں گے‘ ہم ایک بار پھر پوری دنیا کی توجہ حاصل کر لیں گے
چنانچہ میری حکومت سے درخواست ہے آپ دہشت گردی کی جنگ کو سپورٹس تک وسیع کر دیں‘ آپ کرکٹ کو بھی ردالفساد کا حصہ بنا دیں‘ آپ کرکٹ کے معاملے میں بھی ”زیرو ٹالرینس پالیسی“ اپنا لیں‘ آپ یقین کریں ہماری کھچڑی کو رائسینیابنتے دیر نہیں لگے گی‘ بھارت کی طرح ہماری ساری خامیاں بھی شائننگ کرکٹ کے پیچھے چھپ جائیں گی اور یوں پوری دنیا میں پاکستان پاکستان ہو جائے گا۔