وہ آنکھیں مانگ رہا تھا اور بادشاہ اسے دیکھ کر رک گیا‘ ہم میں سے بعض لوگوں کی دعاﺅں میں‘ درخواستوں میں اور التجاﺅں میں کوئی ایسی تڑپ چھپی ہوتی ہے جو گزرتے قدموں کو رکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ آپ کبھی گزرتے ہوئے غور سے دائیں بائیں دیکھیں آپ کو اپنے اردگرد کئی ایسے لوگ ملیں گے جو سر سے پاﺅں تک دعا‘ عرض اور درخواست ہوں گے‘ ان کی آنکھوں کے اندر ایک التجا‘ ایک پکار ہوگی۔ میں نے زندگی میں ایسے بے شمار لوگ‘ بے شمار جانور اور بے شمار پودے دیکھے ہیں جو التجا کی اس بلندی پر تھے
جو چلتے قدموں کو منجمد کر دیتے تھے ‘ یہ منہ سے کچھ نہیں بولتے تھے لیکن دیکھنے والوں کو ان کے وجود کی ایک ایک نس پکارتی ہوئی دکھائی دیتی تھی لیکن لاہور شہر کی آبادی مغل پورہ کا وہ کتا ان سب سے آگے تھا‘ میں اس کی تڑپ کو آج تک نہیں بھول سکا‘ میں جب بھی دعا کرنے لگتا ہوں‘ مجھے وہ کتا یاد آ جاتا ہے اور میری دعائیں پھیکی پڑ جاتی ہیں۔ میں ایک وقت میں ایک صاحب حال کا شاگرد تھا‘ یہ مجھے ہر شام مغل پورہ لے جاتے تھے‘ ریلوے ٹریک کے ساتھ ایک چھوٹی سی ٹوٹی پھوٹی مسجد تھی‘ مسجد کے سائے میں ایک بیمار کتا لیٹا ہوتا تھا‘ کتا خارش کے مرض میں مبتلا تھا‘ مرض کی وجہ سے اس کے بال جھڑ چکے تھے اور جسم پر سفید سفید داغ تھے اور ان میں سے بعض داغوں سے خون رستا رہتا تھا‘ میرے بزرگ تھیلے سے خوراک کا پیکٹ نکالتے‘ کھول کر کتے کے سامنے رکھ دیتے‘ میں مسجد کے نلکے سے پانی کی بالٹی بھر کر لاتا‘ بزرگ کتے کے برتن میں پانی ڈالتے اور اس کے بعد کتے کے زخموں پر مرہم لگانا شروع کر دیتے‘ وہ یہ کام کئی دنوں سے کر رہے تھے‘ میں نے ایک دن واپسی پر ان سے پوچھا ”جناب یہ کیا ہے“ وہ مسکرا کر بولے ”یہ کتا دس ولیوں کے برابر ہے“ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ وہ بولے ”یہ التجا کے اس درجے پر فائز ہے جہاں خالق اور مخلوق کے درمیان ڈائریکٹ ڈائلنگ شروع ہو جاتی ہے‘
مخلوق جو کہنا چاہتی ہے خالق اس کے بولے بغیر سن لیتا ہے“ میرے بزرگ نے کہا ”تم کبھی اس کتے کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھنا‘ تمہیں اس سے مقناطیسی شعاعتیں نکلتی دکھائی دیں گی‘ یہ التجا کی شعاعیں ہیں جو عرش کو ہلا کر رکھ دیتی ہے“ میں نے ان سے پوچھا ”آپ اس کی خدمت کیوں کر رہے ہیں“ وہ بولے ”بیماری اور لاچاری کے اس عالم میں اس کا اللہ تعالیٰ سے مقناطیسی رابطہ ہے‘ میں خدمت کے ذریعے اس مقناطیسی رابطے میں اپنی عرض ڈال دیتا ہوں اور یوں میری التجا بھی اس تک پہنچ جاتی ہے“میں نے اگلے دن کتے کو غور سے دیکھا‘
اس میں واقعی کچھ تھا۔ میرے بزرگ پرانے اجڑے اور جلے ہوئے درختوں کی خدمت بھی کرتے تھے‘ وہ گزرتے ہوئے اچانک کسی درخت کے پاس رک جاتے تھے‘ اسے پانی دیتے تھے اور اس کے پرانے پتے اور سوکھی ٹہنیاں صاف کر دیتے تھے‘ وہ لاکھوںکے ہجوم میں حاجت مند کو بھی تلاش کرتے تھے‘ وہ اچانک کسی کے پاس رک جاتے تھے‘ اسے ایک سائیڈ پر لے جاتے تھے‘ اس سے اس کا مسئلہ پوچھتے تھے اور مسئلہ حل کرانے کیلئے اس کے ساتھ چل پڑتے تھے‘ میں ان سے اکثر پوچھتا
”آپ کو کیسے علم ہو جاتا ہے فلاں شخص‘ فلاں درخت اور فلاں جانور کسی مسئلے میں الجھا ہوا ہے اور اس کو آپ کی مدد چاہئے “ وہ ہنس کر جواب دیتے تھے ”التجا انسان کے چہرے پر تحریر ہوتی ہے‘ مانگنے والا اپنی طلب خواہ ہزاروں مسکراہٹوں میں چھپالے لیکن یہ ننگے کے ننگ کی طرح سامنے آ جاتی ہے‘ بس دیکھنے والی آنکھ چاہئے“ میں ان سے پوچھتا تھا ”لیکن آپ پکارنے والے کی پکار پر کبھی نہیں رکتے‘ آپ ہمیشہ خاموش لوگوں کے پاس رکتے ہیں‘ کیوں؟“ وہ بولے
”پکار جعلی ہوتی ہے کیونکہ سچی التجا سب سے پہلے آپ کے لفظوں کو مفلوج کر تی ہے‘ آپ اگر بول رہے ہیں‘ آپ اگر مانگ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ ابھی مجبوری کی انتہا تک نہیں پہنچے“ وہ کہتے تھے ”آپ جب تک زبان سے مانگتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ اس وقت تک آپ کی نہیں سنتا لیکن جب آپ کی زبان رک جاتی ہے اور پورا جسم دعا بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی قبولیت کے سارے دروازے کھول دیتا ہے“۔
بادشاہ نے بھی خواجہ غریب نواز کی درگاہ پر ایک مانگنے والے کو دیکھا‘ مانگنے والا دونوں آنکھوں سے اندھا تھا ‘ وہ درگاہ کے دروازے پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کر رہا تھا ”اے میرے مولا خواجہ غریب نواز کے صدقے مجھے آنکھیں دے دو“ وہ گڑگڑا کر دعا کر رہا تھا‘ بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تھا‘ وہ مذہب کے معاملے میں عام لوگوں سے مختلف اپروچ رکھتا تھا لہٰذا وہ ہر غیر معمولی حرکت‘ ہر غیر معمولی واقعے پر رک جاتا تھا اور ٹھیک ٹھاک گوشمالی کر تا تھا۔
اورنگ زیب مانگنے والے کے پاس رکا اور اس سے پوچھا ”تم کتنے عرصے سے آنکھیں مانگ رہے ہو“ اندھے نے جواب دیا ”میں پانچ سال سے اس درگاہ پر بیٹھا ہوں اور خواجہ کے صدقے اللہ تعالیٰ سے بینائی مانگ رہا ہوں“ اورنگ زیب نے اندھے سے کہا ”میرا نام اورنگ زیب ہے‘ میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں‘ پوری دنیا جانتی ہے میں اگر زبان سے لفظ نکال دوںتو پھر میں اس پر پورا پورا عمل کرتا ہوں‘میں اپنے وعدے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹتا‘ میں خواجہ کے مزار پر حاضری دینے جا رہا ہوں‘ میں آدھے گھنٹے تک واپس آﺅں گا‘ اگر میرے آنے تک تمہاری بینائی واپس آ گئی تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت میں میرے جلاد تمہارا سر اتار دیں گے“ بادشاہ نے یہ کہا‘
اپنا جلاد اندھے کے سر پر کھڑا کیا اور مزار کے اندر چلا گیا‘ اندھے پر موت کا خوف طاری ہو گیا‘ وہ سجدے میں گرا اور اللہ سے دردناک انداز سے دعا کرنے لگا‘ یا باری تعالیٰ میں پانچ سال سے آنکھوں کو رو رہا تھا‘ تم نے آنکھیں نہ دیں‘ اب میری جان پر بن گئی ہے‘ تم مہربانی فرما کر تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی مجھے بینائی لوٹا دو‘ میں اس ظالم بادشاہ کے ہاتھوں سے بچ جاﺅں‘ وہ گڑگڑاتا تھا اور دعا کرتا تھا‘ دعا کرتا تھا اور گڑگڑاتا تھا‘ گڑگڑانے کے اس عمل کے دوران اس کی زبان ساکت ہو گئی اور اس کا پورا وجود التجا بن گیا‘ وہ سجدے میں پڑا تھا اور اس کے جسم کی تمام نسیں اللہ تعالیٰ سے التجا کر رہی تھیں‘ اس کی التجا اللہ تعالیٰ تک پہنچ گئی‘ اس کے دماغ میں روشنی کا ایک چھناکا ہوا اور اس کی بینائی لوٹ آئی‘
اس نے آنکھیں کھولیں‘ خواجہ غریب نواز کا مزار دیکھا‘ قہقہہ لگایا اور شکرانے کےلئے سجدے میں گر گیا‘ بادشاہ حاضری کے بعد واپس آیا تو اس نے اندھے کو قہقہے لگاتے دیکھا‘ بادشاہ مسکرایا اور نرم آواز میں بولا ”تم پانچ سال سے دعا کر رہے تھے لیکن تمہاری دعا الفاظ تک محدود تھی‘ تم چند آیتیں دہراتے تھے اور پھر ان کے بعد بینائی کی دعا کر دیتے تھے‘ تمہاری دعا میں لفظ تھے‘ تڑپ نہیں تھی‘ میں نے تمہیں قتل کی دھمکی دی تو تمہاری دعا میں تڑپ پیدا ہو گئی اور یوں تم نے چند لمحوں میں قدرت کو اپنی طرف متوجہ کر لیا“ اورنگ زیب نے کہا ”تم منہ سے مزید دس سال بھی مانگتے رہتے تو تمہیں بینائی نہ ملتی کیونکہ اللہ تعالیٰ لفظوں سے متاثر نہیں ہوتا‘ اسے متوجہ کرنے کیلئے تڑپ ضروری ہوتی ہے اور تمہاری دعائیں تڑپ سے خالی تھیں“۔
اورنگ زیب عالمگیر کا فارمولا درست تھا‘ ہم میں سے اکثر لوگوں کی دعائیں تڑپ سے خالی ہوتی ہیں چنانچہ یہ قدرت کے دروازے تک نہیں پہنچ پاتیں‘ ہم تڑپ کی کمی کو حلق کے زور‘ لفاظی اور گریہ و زاری سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن قدرت ناسمجھ نہیں ہوتی‘ یہ لفظوں اور برستی آنکھوں کے پیچھے جھانکنا جانتی ہے لہٰذا یہ ہماری دعاﺅں‘ ہماری عرض کو سائیڈ پر رکھ دیتی ہے اور ہم دس دس سال تک دعاﺅں کے بعد ایک دن اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتے ہیں باری تعالیٰ ہم تو دس سال سے آپ کی زنجیر عدل ہلا رہے ہیں مگر آپ نے ہم پر توجہ ہی نہیں دی۔
شائد اس وقت اللہ تعالیٰ ہم نادان لوگوں کی طرف دیکھ کر فرماتا ہوگا ”میں کیسے سنوں‘ میں تو تڑپ کی زبان سمجھتا ہوں اور تم مجھے عربی‘ اردو اور پنجابی سے بہلارہے ہو“ میں نے ایک بار ملک کے ایک نامور سرجن سے پوچھا تھا ”صحت دوا میں ہوتی ہے یا دعا میں“ اس نے ہنس کر جواب دیا ”اگر مرض چھوٹا ہو تو دوا میں اور بڑا ہو تو دعا میں“ میں نے پوچھا ”اور دعا سے مریض کتنے عرصے میں ٹھیک ہو جاتا ہے“ ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا ”مریض خود کرے تو عرصہ لگ جاتاہے اور اگر اس کی ماں کرے تو وہ جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے“
میں نے پوچھا ”ماں کیوں؟“ ڈاکٹر نے جواب دیا ”ماں کی دعا میں تڑپ ہوتی ہے‘ یہ منہ سے کچھ نہیں کہتی لیکن اس کا انگ انگ دعا بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس وقت ہمیشہ کرم کرتا ہے‘ اس وقت ہمیشہ رحم کرتا ہے“ میرے بزرگ کہا کرتے تھے ”اللہ تعالیٰ کی زبان تڑپ ہے‘ یہی وجہ ہے اللہ کے ہر نبی میں تڑپ تھی اور کوئی ولی بھی اس وقت تک ولی نہیں بن سکتا جب تک اس کی روح میں تڑپ پیدا نہیں ہو جاتی‘ جب تک اس کے اندر سے آواز نہیں نکلتی“۔