ہفتہ‬‮ ، 28 دسمبر‬‮ 2024 

اگر دھرنا ناکام ہو گیا

datetime 27  اکتوبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ہم اب فرض کرتے ہیں عمران خان کا دھرنا کامیاب نہیں ہوتا‘ یہ عوام کا سمندر اسلام آباد لانے میں ناکام ہوجاتے ہیں‘ شہر بند نہیں ہوتا‘ سکول‘ کالج‘ یونیورسٹیاں‘ سرکاری دفتر‘ پرائیویٹ آفسز‘ مارکیٹیں‘ شاپنگ سنٹرز اور دکانیں کھلی رہتی ہیں‘ میڈیا دھرنے کو سپورٹ نہیں کرتا اور ایم کیو ایم میئر وسیم اختر کی رہائی کے بدلے سینٹ اور اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہوتی‘ پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں تقسیم ہو جاتی ہے‘ وزیراعلیٰ پرویزخٹک گورنر اقبال ظفر جھگڑا کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دیتے ہیں اور یہ پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کے ساتھ پریس کانفرنس بلا لیتے ہیں اور فارورڈ بلاک میڈیا کے سامنے چیف منسٹر کی ایڈوائس واپس بھجوانے کی درخواست کر دیتا ہے‘ مسئلہ آئینی اور قانونی بن کر عدالتوں میں پہنچ جاتا ہے‘ مولانا فضل الرحمن آگے بڑھتے ہیں‘ اپوزیشن جماعتوں‘ جماعت اسلامی‘ شیرپاﺅ گروپ اور پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کو ساتھ ملاتے ہیں اور وزیراعلیٰ بدل دیتے ہیں‘ یہ سپیکر اسد قیصر کو وزیراعلیٰ بنا دیتے ہیں یا

پھر جماعت اسلامی کو وزارت اعلیٰ دے دیتے ہیں اور یوں صوبائی اسمبلی بھی بچ جاتی ہے‘ کے پی کے بھی عمران خان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور ان کی توجہ اسلام آباد سے بھی ہٹ جاتی ہے‘ سپریم کورٹ بھی روزانہ کی بنیاد پر کیس نہیں سنتی‘ یہ پٹیشنز کو قانونی رفتار سے چلنے دیتی ہے ‘ سپریم کورٹ عمران خان کو دھرنا ختم کرنے کا حکم دے دیتی ہے یا پھر حکومت کریک ڈاﺅن کے ذریعے کارکنوں کو گرفتار کر لیتی ہے‘ یہ قائدین کو نظر بند کر دیتی ہے اور وہ بلاول بھٹو ‘ خورشید شاہ اور چودھری اعتزاز احسن ان کی رہائی کےلئے پریس کانفرنسیں شروع کر دیتے ہیں جنہیں یہ چور‘ ڈاکو اور مک مکا قرار دیتے رہے تھے اور سردی بھی بڑھ جاتی ہے اور بارشیں بھی شروع ہو جاتی ہیں اور یہ سارے معاملات آگے چل کر دھرنے کی ناکامی کا باعث بن جاتے ہیں تو کیا ہو گا؟ فائنل شٹ ڈاﺅن اور لاک ڈاﺅن کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ یہ سوال دلدل ہے اور ملک‘ عمران خان اور جمہوریت تینوں اس دلدل کی خشک سطح پر کھڑے ہیں‘ بس ایک کروٹ لینے کی دیر ہے اور یہ تینوں دلدل کا رزق بن جائیں گے۔

عمران خان کے دھرنے کی ناکامی کا پہلا نقصان جمہوریت کو ہوگا‘ ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں سلطنتیں ہیں اور ان کے قائدین بادشاہ ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے 37سال بعد بھی زندہ ہیں‘ زندہ بھٹو کی روح کبھی آصف علی زرداری میں حلول کر جاتی ہے اور یہ کبھی بلاول زرداری کو بلاول بھٹو بنا دیتی ہے‘ یہ پارٹی سیاسی جماعت کم اور تخت زیادہ ہے اور اس تخت کا وارث بہرحال کوئی نہ کوئی بھٹو ہی ہو گاجبکہ پاکستان مسلم لیگ ن بنی ہی میاں نواز شریف کے نام پر تھی لہٰذا پارٹی کے تمام جملہ حقوق ان کے پاس ہیں‘ پارٹی کے تمام فیصلے صرف اور صرف یہ کرتے ہیں اور یہ میاں صاحب کا فیصلہ ہے ملک اور پارٹی کے تمام کلیدی عہدے شریف فیملی‘ خواجگان‘ بٹ صاحبان‘ کشمیریوں اور پنجابیوں کے پاس ہوں گے‘ یہ کیونکہ پنجاب کو اپنا سیاسی کعبہ سمجھتے ہیں چنانچہ کعبے کی کنجی شریف فیملی کے پاس رہے گی‘ پارٹی ان کی جاگیر ہے چنانچہ یہ جاگیر حمزہ شہباز چلائیں گے اور پیچھے رہ گئے ملک کے اعلیٰ عہدے تو ان کے فیصلے بھی میاں نواز شریف کریں گے‘ یہ بادشاہ کی طرح جس سے خوش ہوں گے یہ اسے کسی بڑے شہر کا میئر بنا کر کوئی نہ کوئی ریاست سونپ دیں گے‘ پارٹی کے ایم پی اےز‘ ایم این اےز‘ سینیٹرز‘ وزرائ‘گورنرز‘ وزراءاعلیٰ اور صدر کھمبے ہیں‘ میاں صاحب جس کھمبے پر جو پرچم باندھ دیں گے وہ کھمبا وہ بن جائے گا اور یہ جس

عہدیدار سے جو پرچم اتار لیں گے‘ وہ عہدیدار دوبارہ کھمبا بن جائے گا‘ عمران خان حبس کے اس موسم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھے‘ ان کی وجہ سے سیاست کے بتوں میں لکیریں آنے لگی تھیں‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف دونوں اپنے ساتھیوں کو عزت دینے لگے تھے‘ میاں نواز شریف نے دھرنے کی وجہ سے ساڑھے تین سال بعد پارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا‘ یہ پارٹی کے اندر الیکشن پر بھی مجبور ہو گئے‘ یہ کابینہ کے اجلاس بھی بلانے لگے‘ یہ پارلیمنٹ میں بھی آنے جانے لگے اور انہیں ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت بھی نظر آنے لگی‘یہ ساری تبدیلی عمران خان کی مہربانی تھی‘ عمران خان کا یہ دباﺅ اسی طرح جاری رہتا تو مجھے یقین تھا یہ دونوں پارٹیز حقیقی سیاسی جماعتیں بن جاتیں‘ یہ شریف اور بھٹوز سے باہر آنے پر بھی مجبور ہو جاتیں اور یہ بٹ اور سائیں سے بھی باہر نکل آتیں لیکن عمران خان جلدی کر بیٹھے اور یہ اگر اب ناکام ہو جاتے ہیں تویہ دونوں پارٹیاں مزید مضبوط ہو جائیں گی‘ میاں نواز شریف کا نخرہ غرور بن جائے گا اور آصف علی زرداری کا تیر تلوار اور اس کا نقصان جمہوریت کو ہوگا‘ پاکستانی جمہوریت بدترین سیاسی آمریت بن جائے گی اور یہ لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے ”اگر عمران خان اپنے ایمپائر کے ساتھ مل کر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا تو کوئی اور کیا بگاڑ لے گا“ اور یہ طعنہ اور یہ سوچ ملک کو خوفناک جمہوری آمریت کا شکار بنا دے گی۔

دو نومبر کے دھرنے کی ناکامی کے دوسرے شہید خود عمران خان ہوں گے‘ یہ ناکامی انہیں ”بڑھ بولا“ ثابت کر دے گی‘ عوام اس کے بعد ان کی تقریر‘ جلسے اور دھرنے پر یقین نہیں کریں گے‘ لوگ آج بھی انہیں سیریس نہیں لے رہے‘ دھرنے کی ناکامی کے بعد یہ تھوڑا بہت بھرم بھی ختم ہو جائے گا اوریوں یہ پشاور میں بھی جلسہ نہیں کر سکیں گے‘ پارٹی کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ بھی بڑھ جائے گی‘ موسمی پرندے اڑان بھر جائیں گے‘ چودھری سرور واپس لندن چلے جائیں گے‘ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین بھی نئے امکانات پر غورشروع کردیں گے‘ کے پی کے میں فارورڈ بلاک بن جائے گا اور یہ بلاک صوبے کے تمام فیصلے بنی گالا کی بجائے پشاور میں کرائے گا‘ ایمپائر بھی عمران خان سے مایوس ہو جائیں گے‘ عمران خان کے عزیز ترین اینکر بھی غائب ہو جائیں گے اور یوں عمران خان اصغر خان بن کر تاریخ کے کھردرے صفحات میں گم ہوتے چلے جائیں گے اور دھرنے کی ناکامی کا تیسرا ”وکٹم“ پاکستان ہو گا‘ ملک میں بڑی مشکل سے سماجی اور سیاسی تبدیلیاں آئی تھیں‘ نوجوان طبقہ طویل بے حسی اور لاتعلقی کے بعد عملی میدان میں آیا تھا‘ یہ ووٹ کےلئے پولنگ سٹیشن گئے تھے‘ یہ جلسوں اور دھرنوں میں شریک ہوئے تھے اور ملک میں لوگ پہلی مرتبہ کرپشن‘ اقرباءپروری‘ نظام کی خرابی اور سیاسی جماعتوں کی بادشاہت کے خلاف بولنے لگے تھے‘ یہ بہت اچھی شروعات تھیں‘ یہ اگر اسی طرح جاری رہتیں اور عمران خان الیکشن ریفارمز کرا لیتے‘ یہ نئی ووٹر

لسٹیں بنوا لیتے‘ یہ ملک میں مردم شماری کرا لیتے‘ الیکشن میں بائیو میٹرک سسٹم آ جاتا‘ یہ الیکشن کمیشن کو ٹائیٹ کرا لیتے اور یہ عدلیہ کو جلد فیصلوں پر مجبور کر دیتے تو ملک میں حقیقی تبدیلی آ جاتی‘ عمران خان اگر خیبر پختونخواہ پر توجہ دیتے‘ یہ اپنی اور اپنی پارٹی کی ساری توانائیاں وہاں صرف کرتے تو ان کا صوبہ پوری دنیا کےلئے آئیڈیل بن جاتا‘ دوسرے صوبوں کو تحریک ملتی‘یہ بھی ان کی تقلید کرتے اور پورا ملک بدل جاتا‘ یہ اگر اسی طرح پارٹی کی تنظیم سازی پر توجہ دیتے‘ یہ ملک کے تمام شہروں‘ قصبوں اور دیہات میں پارٹی دفاتر بناتے‘ نوجوانوں کی باڈیز بناتے‘ پارٹی کے سیاسی سکول اور کالج بناتے‘ اپنے تمام ورکروں کو سوشل میڈیا کے ذریعے آپس میں جوڑ دیتے اوریہ اپنی ووٹر لسٹیں بناتے اور حلقوں کےلئے بہتر امیدوار تلاش کرتے تو یہ ملک میں 2018ءتک قائد انقلاب اور ان کی جماعت انقلابی پارٹی بن چکی ہوتی لیکن عمران خان سیدھے راستے کی بجائے اس راستے پر چل پڑے جس پر چل کر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری

اقتدار تک پہنچے تھے‘ آپ آج پاکستان تحریک انصاف کا ملک کی دونوں پرانی جماعتوں کے ساتھ تقابل کر لیں‘ آپ تینوں کو ایک جیسا پائیں گے‘ آپ کو تینوں کے نام‘ چہرے اور بیانات تک ایک ملیں گے‘ مخدوم اُدھر بھی ہیں اور مخدوم اِدھر بھی ہیں‘ اے ٹی ایم اُدھر بھی ہیں اور اے ٹی ایم اِدھر بھی ہیں اور جینوئن کارکن اُدھر بھی ذلیل ہو رہے ہیں اور یہ اِدھر بھی خاک چاٹ رہے ہیں چنانچہ پھر فرق کہاں ہے؟ آپ کسی دن کوئی اخبار اٹھا ئیے اور تینوں پارٹیوں کے رہنماﺅں کے بیانات کی سرخیوں میں نام تبدیل کر دیجئے‘ عمران خان کے بیان کے اوپر بلاول بھٹو کا نام لکھ دیجئے‘ بلاول بھٹو کے بیان پر عمران خان کا نام لگا دیجئے اور آپ میاں نواز شریف کے بیان پر آصف علی زرداری لکھ دیجئے‘ آپ کو کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا‘ یہ کیا ہے؟یہ وہ مقام افسوس ہے جس کا ماتم پوری قوم کر رہی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو تبدیلی کا شاندار موقع دیا تھا لیکن

ان کی جلد بازی نے یہ موقع ضائع کر دیا‘ رہی سہی کسر دھرنے کی ناکامی پر پوری ہو جائے گی‘ آپ بدقسمتی دیکھئے عمران خان کی غلطیوں نے سیاست کو خربوزہ بنا دیا ہے‘ یہ اب چھری کے اوپر ہو یا نیچے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ قوم نے بس یہ تخمینہ لگانا ہے ملک کو دھرنے کی کامیابی سے زیادہ نقصان ہو گا یا ناکامی سے! نقصان بہرحال اب ہمارا مقدر ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…