ہفتہ‬‮ ، 28 دسمبر‬‮ 2024 

شکایت ڈاٹ کام

datetime 19  اگست‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مجھے چند دن قبل ڈیرہ غازی خان کے کسی صاحب نے ای میل کی‘ ان کی دکھ بھری کہانی میں وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کےلئے بے شمار سبق ہیں چنانچہ میں یہ ای میل میاں شہباز شریف کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو ایسی صورتحال کے تدارک کےلئے چند تجاویز بھی پیش کروں گا‘ میاں شہباز شریف اگر ذرا سی توجہ دے دیں تو ہزاروں لاکھوں مجبوروں کا بھلا ہو جائے گا‘ آپ پہلے یہ ای میل ملاحظہ کریں۔
”میں ڈی جی خان کی بزنس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں‘میں اپنی بیوی کو ڈیلیوری کے لئے ڈی جی خان کے سب سے بڑے ہسپتال کئیر سنٹر لے گیا‘ رات ساڑھے نو بجے ڈیلیوری ہوئی‘ ڈاکٹروں نے بچے کو نرسری میں شفٹ کر دیا‘ ساڑھے بارہ بجے بتایا گیا بچے کے پھیپھڑے صحیح کام نہیں کر رہے‘ آپ اسے ملتان لے جائیں‘ میں بچے کو لے کر رات دو بجے سٹی ہسپتال ملتان پہنچا ‘ انہوں نے بچے کو ایڈمٹ کرنے سے معذرت کر لی‘ میں ایک اور پرائیویٹ ہسپتال میڈی کئیر پہنچا وہاں بھی سینئر ڈاکٹر نہ ہونے کا بہانہ کر کے بچے کو ایڈمٹ کرنے سے انکار کر دیاگیا‘ میںاب سرکاری ہسپتال چلڈرن کمپلیکس ملتان پہنچا‘ انہوں نے بھی”ہاوس فل ہے‘ آپ نشترہسپتال چلے جائیں یہاں ایک بھی بچہ ایڈمٹ کرنے کی گنجائش نہیں “ کاجواب دے کر مجھے جواب دے دیا‘ میں نشتر کی چلڈرن وارڈ کی ایمرجنسی پہنچا ‘ انہوں نے بچہ داخل کر کے کہا” مسئلے کا حل سرونٹا انجکشن ہے ‘یہ وزن کے حساب سے لگتا ہے‘ آپ کے بچے کا وزن تین کلو ہے لہٰذا بچے کو تین انجکشن لگیں گے‘ فی انجکشن پندرہ ہزار روپے ہے“۔میں انجکشن لینے چلا گیا‘ میںجب پینتالیس ہزار روپے کے تین انجکشن لے کر پہنچا تو ایک اور مصیبت سر پر آ گری‘ ڈاکٹر نے بتایا وینٹی لیٹر کے بغیر انجکشن نہیں لگ سکتا اور پنجاب کے تیسرے بڑے شہر کے ایشیا کے سب سے بڑے ہسپتال میں وینٹی لیٹر نہیں تھا‘ میری جیب میں چالیس ہزار روپے تھے اور وینٹی لیٹر ڈھائی لاکھ روپے کا تھا‘ میں نے کرائے پر کا وینٹی لیٹر لینے کی تجویز دی ‘ ڈاکٹر نے جواب دیا‘ بھائی صبح ساڑھے پانچ بجے کون اٹھ کر کرائے پر وینٹی لیٹر دے گا‘ وینٹی لیٹر میڈی کئیر میں ہے‘ آپ میڈی کئیر رابطہ کر کے انہیں یہ گارنٹی دے دیں اگر انجکشن لگنے کے دوران بچہ فوت ہو گیا تو ذمہ داری آپ کی ہوگی تو وہ آپ کا بچہ ایڈمٹ کر لیں گے‘ میں نے میڈی کئیر رابطہ کیا ‘ انہوں نے جواب دیا‘ آپ آ جائیں‘ میں ایمبولینس لینے گیا تو ہسپتال نے پیچھے سے بچے کو یہ کہہ کر نرسری میں شفٹ کر دیا ہم بچہ زیادہ دیر ایمرجنسی میں نہیں رکھ سکتے‘ نرسری میں اے سی تو دور پنکھے بھی اتنے اونچے تھے کہ ہوا نہیں آ رہی تھی‘میں جب ایمبولینس لے کرہسپتال میں پہنچا تو بچہ قریب المرگ تھا‘ میری بہن اسے مصنوعی سانس دے رہی تھی‘ میں ایمبولینس سے آکسیجن کا سلنڈر نکال کے وارڈ میں پہنچا تو بچے کا انتقال ہو چکا تھا۔میںوزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں‘میں ایک صاحب ثروت بزنس مین ہوں‘ میں جیب میں ایک لاکھ روپے ڈال کرگھر سے نکلالیکن میں اپنے بچے کی زندگی نہیں بچا سکا تو دس بیس ہزار روپے ماہانہ لینے والے ملازمین کے بچوں کا کیا ہوتا ہوگا؟میں مسلم لیگی ہوں لیکن میری ساری مسلم لیگیت اور میاں شہبازشریف کی ساری گڈ گورننس ڈھائی لاکھ روپے کے ایک سلنڈر نے نکال کے باہر کچرے میں پھینک دی ‘ میں میاں برادران سے پوچھنا چاہتا ہوں‘پچاس ارب روپے کی میٹرو کے شہر کے ہسپتالوں میں ڈھائی لاکھ کے وینٹی لیٹر کیوں نہیں ہیں؟نہ جانے اب تک کتنے ننھے پھول مسلے جاچکے ہیں ‘ہمارے بچوں کو وینٹی لیٹر میسر نہیں ہیں ہم میاں صاحب کی میٹرو کا اچار ڈالیں گے؟خدارا میاں صاحبان سڑکیں نہیں ہسپتال بنائیں‘ نجی ہسپتال والوں کو ایمرجنسی کیسز لینے کا پابند بنائیں‘سرکاری ہسپتال میں مفت ادویات اور اے سی کو یقینی بنائیںاور خدا را تحصیل نہیں تو ضلع کی سطح پر ایک معیاری ہسپتال ضرور بنائیںورنہ آپ میرے جیسے بدنصیب لوگوں کی بددعاﺅں کا شکار ہو جائیں گے“۔
یہ داستان ایک تلخ حقیقت ہے‘ پنجاب کے سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت واقعی بہت خراب ہے‘ آپ جوں ہی میٹرو سے اتر کر پنجاب کے کسی ہسپتال یا سرکاری سکول میں داخل ہوتے ہیں تو گڈ گورننس دہلیز پر ہی دم توڑ دیتی ہے مگر آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں پنجاب کے سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت دوسرے صوبوں سے کہیں بہتر ہے‘ عمران خان کے تبدیل شدہ صوبے میں دل کے امراض اور بچوں کا کوئی ہسپتال نہیں چنانچہ دل کے تمام مریض اسلام آباد کے پمز یا پھر راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل ہوتے ہیں جبکہ بیمار بچوں کے والدین سیدھے لاہور پہنچتے ہیں‘ آپ لاہور کے چلڈرن ہسپتال کا ریکارڈ دیکھ لیجئے‘ آپ کو وہاں نصف سے زائد بچے خیبر پختونخواہ کے ملیں گے‘ بلوچستان کی صورتحال اس سے بھی دگر گوں ہے جبکہ سندھ کے ہسپتالوں میں پانی اور بجلی تک موجود نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے ہم دوسرے صوبوں کی خراب کارکردگی کا کریڈٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو نہیں دے سکتے‘ میاں شہباز شریف کو ہسپتالوں اور سکولوں کو بھی اتنی ہی توجہ دینی چاہیے جتنی توجہ یہ میٹرو اور اورنج ٹرین کو دے رہے ہیں‘ یہ پنجاب میں آٹھ سال سے حکمران ہیں‘ ان کی دوسری مدت اقتدار کے دو سال باقی ہیں‘ یہ دو سال بعد ملکی تاریخ میں دس سالہ وزارت اعلیٰ کا ریکارڈ قائم کر دیں گے لیکن اگر پنجاب کے ہسپتال دس سال کی ریکارڈ مدت کے بعد بھی وینٹی لیٹر‘ آکسیجن‘ واش رومز‘ پانی‘ بجلی اور ایمرجنسی سے محروم رہتے ہیں تو پھر عوام کو میاں صاحب کے ریکارڈ کا کیا فائدہ ہوا؟ پنجاب کے لوگ میاں شہباز شریف کو کیوں یاد رکھیں؟ چنانچہ میری میاں شہباز شریف سے درخواست ہے آپ نے جتنی میٹروز بنانی تھیں آپ نے بنا لی ہیں‘ آپ اب اگلے دو سال ہسپتالوں اور سکولوں کےلئے وقف کر دیں‘ آپ اب پنجاب کے ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت پر توجہ دیں‘ آپ اس سلسلے میں چند کام کر سکتے ہیں‘ آپ ہر تحصیل میں ایک ایک ایمرجنسی ہسپتال بنا دیں‘ یہ ہسپتال صرف ایمرجنسی مریضوں کا علاج کریں‘ مریض جوں ہی ایمرجنسی سے نکلے‘ ڈاکٹر اسے عام ہسپتال میں شفٹ کر دیں‘ ایمرجنسی ہسپتالوں میں بجلی سے لے کر ادویات تک تمام طبی سہولتیں دستیاب ہوں‘ ڈاکٹرز بھی موجود ہوں اور دس دس ایمبولینسز بھی‘ آپ تمام پرائیویٹ ہسپتالوں کو پابند کر دیں یہ ایمرجنسی کے شکار کسی مریض کو انکار نہیں کریں گے‘ یہ پہلے مریض کو داخل کریں گے اور پھر کاغذی کارروائی کریں گے اور جو ہسپتال اس کی خلاف ورزی کرے اسے بھاری جرمانہ عائد کر دیا جائے‘ آپ ہسپتالوں کو تین اقسام میں تقسیم کر دیں‘ ہر قسم کےلئے ”ایس او پی“ بنائیں‘ آپ صوبے کے تمام ہسپتالوں کو دو برسوں میں ان ”ایس او پیز“ کے برابر لے آئیں‘ آپ ہر ڈویژن میں بین الاقوامی سطح کا ایک ہسپتال بنا دیں‘ اس ہسپتال میں تمام شعبے موجود ہوں‘ اگر اس ڈویژن کا کوئی مریض علاج کےلئے دوسری ڈویژن جائے تو حکومت ڈویژنل ہیلتھ آفیسر کے خلاف کارروائی شروع کر دے‘ آپ تمام اضلاع میں انڈسٹریل سائیٹس کی طرز پر میڈیکل سائیٹس بھی بنا دیں‘ ضلع کا کوئی بھی مخیر شخص‘ کوئی بھی کاروباری خاندان اور کوئی بھی ڈاکٹر اس سائیٹ میں ہسپتال یا کلینک بنانا چاہے تو حکومت اسے مفت زمین دے دے‘ یہ سکیم مریضوں کا سفر کم کر دے گی‘ یہ علاج کےلئے پورے شہر میں خوار ہونے کی بجائے صرف ایک جگہ جائیں گے‘ حکومت بھی پورے شہر کی بجائے صرف ایک جگہ توجہ دے گی اور آخری مشورہ پنجاب 9 کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے‘ یہ درست ہے حکومت ہر شخص اور ہر دفتر پر نظر نہیں رکھ سکتی لیکن آپ عوامی شکایات اور ان کے فوری تدارک کےلئے سسٹم تو بنا سکتے ہیں‘ پنجاب حکومت شکایت ڈاٹ کام کے نام سے ایک ویب سائیٹ بنائے‘ صوبے کے تمام لوگ اس ویب سائیٹ پر اپنی شکایت درج کرا سکیں‘ لوگ اپنی شکایت تحریر بھی کر سکیں‘ آڈیو بھی ریکارڈ کرا سکیں اور وڈیو پیغام بھی دے سکیں‘ حکومت کے تمام ادارے ویب سائیٹ کے ساتھ منسلک ہوں‘ یہ ادارے فوری طور پر شکایت کا ازالہ کریں‘ اداروں کی طرف سے ازالے کی وڈیو بھی سائیٹ پر لگائی جائے اور شکایت کنندہ کے اطمینان کا پیغام بھی‘ یہ ویب سائیٹ عوام‘ سرکاری اداروں اور حکومت تینوں کو آپس میں جوڑ دے گی‘ میرا خیال ہے اگر عوام کی شکایات میاں شہباز شریف تک پہنچ جائیں تو بھی نوے فیصد مسئلے حل ہو جائیں گے اور سوشل میڈیا آج کے دور میں حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا شاندار ذریعہ ہے‘ یہ ذریعہ اگر موجود ہوتا تو آج ڈی جی خان کے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز پورے ہوتے اور بچے آکسیجن کی کمی سے نہ مر رہے ہوتے چنانچہ میرا مشورہ ہے وزیراعلیٰ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام سے رابطہ رکھیں اور روزانہ ہزاروں لوگوں کی دعائیں لیں ‘ عوام ہی وہ طاقت ہیں جو حکمرانوں کو حکمران بناتے ہیں‘یہ ہی حکمرانوں کو بچاتے ہیں‘ آپ اگر حکمران رہنا چاہتے ہیں تو عوام کو خوش رکھیں‘ عوام کی خوشی سے اللہ تعالیٰ خوش ہوگااور یہ حقیقت ہے جب اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کون کون آپ سے ناراض ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اور عوام آپ سے ناخوش ہیںتو آپ پوری دنیا کو خوش رکھ کر بھی حکمران نہیں رہ سکتے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…