جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ایماندار اور معصوم لوگ

datetime 18  فروری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

قومی احتساب بیورو اگر تصویر ہے تو پھر اس تصویر کے دو رخ ہیں اور یہ دونوں رخ حقائق پر مبنی ہیں‘ آپ پہلا رخ ملاحظہ کیجئے۔
لاہور میں میرے ایک جاننے والے ہیں‘ یہ گارمنٹس کے بزنس سے وابستہ ہیں‘ یہ جینز کی پتلونیں بنا کر ایکسپورٹ کرتے ہیں‘ دو فیکٹریاں ہیں اور ان فیکٹریوں میں اڑھائی تین ہزار لوگ ملازم ہیں‘ ان کا کاروبار ٹھیک چل رہا تھا لیکن پھر ان کے دماغ میں ایک حماقت سما گئی‘ لاہور میں ان کے پاس نہر کے کنارے دس کنال کی کوٹھی تھی‘ انہوں نے اس کوٹھی میں کالج کھول لیا‘ ان دنوں سرکاری یونیورسٹیاں فرنچائز دے رہی تھیں‘ یہ بھی فرنچائز تلاش کرنے لگے‘ اس تلاش کے دوران کاروباری لوگوں کا ایک گروپ ان کے پاس آیا‘ گروپ کے پاس بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی کی ’’افیلی ایشن‘‘ تھی‘ گروپ میں پنجاب حکومت کے وزیر تعلیم بھی شامل تھے‘ یہ لوگ کیمپس کیلئے جگہ تلاش کر رہے تھے‘ یہ دونوں پارٹیاں آمنے سامنے بیٹھیں‘ کاروباری معاہدہ ہوا اور یہ دونوں پارٹنر بن گئیں‘ گروپ کے پاس یونیورسٹی کی طرف سے لاہور میں سب کیمپس کھولنے کا اجازت نامہ بھی تھا اور وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے منظوری کا خط بھی۔ کیمپس کھل گیا‘ اخبارات میں اشتہار دیئے گئے‘ طالب علموں نے یلغار کر دی‘ پانچ چھ ہزار طالب علم داخل ہو گئے‘ داخلے مکمل ہوئے تو اس گروپ نے میرے جاننے والے کو پیش کش کی ’’آپ ہم سے یہ ساری فرنچائز خرید لیں‘‘ یہ لالچ میں آ گئے اور انہوں نے ہاں کر دی‘ سودا ہو گیا‘ یہ سودا وزیر کے گھر پر اس کی موجودگی میں ہوا تھا اور چیک بھی اس کے سیکرٹری نے وصول کئے یوں وہ لوگ پیسے لے کر فارغ ہو گئے‘ کیمپس شروع ہوا تو مسائل کا پنڈورا باکس کھل گیا‘ تعلیم کا وزیر بدل چکا تھا‘ نئے وزیر نے کیمپس کا اجازت نامہ منسوخ کرا دیا‘ پھڈے شروع ہوئے اور ان پھڈوں میں وزراء‘ وزراء کے فرنٹ مینوں اور مختلف ایم پی ایز نے اپنا حصہ وصول کرنا شروع کر دیا‘ یہ صاحب جان اور عزت بچانے کیلئے گرداب میں پھنستے چلے گئے‘ یہ مختلف فرنٹ مینوں کے ہتھے چڑھتے رہے‘ یونیورسٹی کے ارباب اختیار بھی چھریاں لے کر ان کے پیچھے دوڑ پڑے یوں ان کا ایک قدم ملتان میں ہوتا تھا‘ دوسرا سیکرٹریٹ میں اور یہ خود عدالتوں میں ہوتے تھے‘ اس کھیل کا ڈراپ سین نیب میں ہوا‘ نیب کے اہلکار آئے اور وائس چانسلر‘ رجسٹرار اور ان صاحب کے بیٹے کو گرفتار کر لیا جبکہ یہ خود ضمانت قبل از گرفتاری کی وجہ سے بچ گئے‘ یہیں سے ایک نئی داستان شروع ہوئی۔
یہ صاحب ہر انکوائری پر نیب کے دفتر پہنچے‘ ان سے جو کاغذ مانگا گیا انہوں نے پیش کر دیا‘ انہوں نے وزیر کے حوالے کئے جانے والے چیکوں کا ریکارڈ بھی ہینڈ اوور کر دیا اور معاہدے بھی سامنے رکھ دیئے لیکن نیب اصل مجرموں کو گرفتار کرنے کی بجائے ان صاحب‘ ان صاحب کے بیٹے اور سابق وائس چانسلر کو رگڑا لگاتی رہی‘ ان کا بیٹا جیل اور عدالتوں میں دھکے کھاتا رہا اور یہ سڑکوں پر ذلیل ہوتے رہے‘ ذلت کے اس سفر کے دوران سارا کاروبار تباہ ہو گیا‘ دونوں فیکٹریاں تقریباً بند ہو گئیں‘ سودے منسوخ ہو گئے‘ طالب علموں نے فیسیں دینے سے انکار کر دیا‘ بینکوں کی قسطیں سر چڑھ گئیں اور کیمپس کا عملہ نوکریاں چھوڑنے لگا‘ اب صورتحال یہ ہے‘ یہ شخص بری طرح معاشی مسائل کا شکار ہے‘ کاروبار تباہ ہو چکا ہے‘ گاڑیاں بک گئی ہیں اور پراپرٹی گروی پڑی ہے‘ ان کا بیٹا پانچ چھ ماہ کی خواری کے بعد جیل سے باہر آ چکا ہے مگر کورٹ کچہریوں کے چکر اور وکیلوں کی فیسیں ان دونوں کے مقدر کا حصہ بن چکی ہیں‘ نیب اصل مجرموں کو جانتی ہے‘ یہ مجرم آج بھی وزراء اور ارکان اسمبلی کا سٹیٹس انجوائے کر رہے ہیں مگر نیب انہیں گرفتار نہیں کر رہی‘ کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ مضبوط ہیں‘ یہ ملک کے طاقتور لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور ان میں ایک ایم پی اے خود کو حمزہ شہباز کا سیکرٹری بھی کہتا ہے۔
آپ ذرا ٹھنڈے دل سے فیصلہ کیجئے‘ کیا یہ صاحب قصور وار تھے؟ نہیں اور یہ بہت جلد بے گناہ بھی ثابت ہو جائیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ کیمپس انہوں نے خریدا تھا‘ انہوں نے الاٹ نہیں کرایا تھا‘ الاٹ کرانے والے لوگ وزیر اور ان کے فرنٹ مین تھے اور یہ حقیقت جلد یا بدیر عدالت میں ثابت ہو جائے گی اور عدالت انہیں باعزت بری کر دے گی لیکن سوال یہ ہے ‘یہ صاحب جب کل بے گناہ ثابت ہو جائیں گے تو انہیں اپنی اس بے گناہی کا کیا فائدہ ہو گا؟ ان کی فیکٹریاں تو بند ہو چکی ہوں گی‘ یہ تو فٹ پاتھ پر آ چکے ہوں گے‘ یہ تو پانچ چھ ہزار طالب علموں کے مجرم بن چکے ہوں گے اور ان کے اڑھائی تین ہزار ملازموں کے چولہے تو ٹھنڈے پڑ چکے ہوں گے! یہ نقصان کون برداشت کرے گا‘ اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ نیب کی تصویر کا یہ پہلا رخ ثابت کرتا ہے‘ ادارے کے سسٹم میں خامیاں موجود ہیں اور معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے یہ خامیاں دور ہونی چاہئیں‘ نیب کو پابند بنانا چاہیے‘ یہ پبلک فگرز‘ کاروباری شخصیات اور سرکاری ملازمین کے خلاف پہلے تحقیقات کرے‘ ان کے خلاف ناقابل تردید ثبوت جمع کرے‘ پھر ان کے انٹرویوز لے‘ انہیں خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا پورا موقع فراہم کرے اور اگر یہ خود کو معصوم ثابت نہ کر سکیں تو نیب انہیں کاروبار‘ چیک بکس اور کمپنی کسی دوسرے شخص کے حوالے کرنے کی مہلت دے اور اس کے بعد اس شخص کو بے شک گرفتار کر لے‘ اس سے لوگوں کا کاروبار بھی بچ جائے گا‘ عزت بھی اور ملک میں بے روزگاری بھی نہیں پھیلے گی‘ آپ اگر لوگوں کو یوں بلاتحقیق اٹھاتے رہیں گے تو ملک میں کاروبار کا جنازہ بھی نکل جائے گا‘ خاندان بھی تباہ ہو جائیں گے‘ بے روزگاری بھی پھیلے گی اور سرکاری ملازمین بھی فائل پر دستخط کرنے سے گھبرائیں گے اور یوں ملک کا رہا سہا نظام بھی جواب دے جائے گا چنانچہ میرا خیال ہے‘ نیب کے سسٹم میں اصلاحات ہونی چاہئیں۔
یہ تصویر کا ایک پہلو تھا‘ اب آپ دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجئے‘ ہمیں کھلے دل سے یہ ماننا ہو گا‘ ہم من حیث القوم کرپٹ ہیں‘ ہم اس مملکت خداداد میں گلی کے چوکیدار سے لے کر صدر تک کسی کی ایمانداری کی قسم نہیں کھا سکتے‘ گلیوں میں جب کیچڑ ہوگا تو کس کا جوتا‘ کس کا پاؤں صاف رہے گا؟ ہم ایک کرپٹ سماج کا حصہ ہیں‘ ایک ایسے کرپٹ سماج کا حصہ جس میں سیاست اور بیورو کریسی دونوں کرپشن کی نرینہ اولاد ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ میگا کرپشن کے ان 150 کیسز کی فائل نکال کر دیکھ لیجئے جو نیب نے سات جولائی 2015ء کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی‘ آپ کے ہوش اڑ جائیں گے‘ آپ کو اس فہرست میں آصف علی زرداری بھی ملیں گے‘ میاں نواز شریف بھی‘ شہباز شریف بھی‘ اسحاق ڈار بھی‘ یوسف رضا گیلانی بھی‘ راجہ پرویز اشرف بھی‘ چودھری شجاعت بھی‘ پرویز الٰہی بھی‘اسلم رئیسانی بھی‘ حسین حقانی بھی‘ آفتاب شیرپاؤ بھی‘ یونس حبیب بھی‘ ظفر گوندل بھی‘ ایاز خان نیازی بھی‘ توقیر صادق بھی‘میاں منشاء بھی‘ جنرل سعید الظفر بھی‘ سلمان صدیق بھی‘ شاہد رفیع بھی‘ اسماعیل قریشی بھی‘ حکیم ارشد بھی‘ ہارون اختر بھی‘ جہانگیر صدیقی بھی اور محمد صدیق میمن بھی۔ اندازے کے مطابق ان لوگوں سے ملک کے سالانہ بجٹ کے برابر رقم وصول کی جا سکتی ہے لیکن اٹھارہ اٹھارہ سال گزرنے کے باوجود ان کیسز کی تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں اور اگر تحقیقات مکمل ہیں تو عدالتوں نے فیصلہ نہیں کیا اور اگر عدالتیں فیصلے کر چکی ہیں تو وہ فیصلے این آر او کی نذر ہو چکے ہیں‘ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لئے ہے کہ یہ لوگ ملک میں قانون‘ آئین اور احتساب تینوں سے مضبوط ہیں‘ یہ قانون کا جال توڑ کر منصف کی گردن پر باندھ دیتے ہیں اور یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کی وجہ سے ملک کے زیادہ تر سیاستدان اور بیورو کریٹ لوٹے بنتے ہیں کیونکہ یہ لوگ جانتے ہیں‘ یہ اگر اقتدار سے باہر ہو گئے تو ان کے مقدموں کا فیصلہ ہو جائے گا چنانچہ ان کے پاس قانون سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے‘ یہ مرنے تک اقتدار کا حصہ رہیں اور یہ لوگ ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں لہٰذا آپ فیصلہ کیجئے‘ کیا نیب اس صورتحال میں غیر جانبداری سے تحقیقات کر سکتی ہے؟ کیا یہ میگا کرپشن کیسز میں ملزموں کو گرفتار کر سکتی ہے؟ آپ کو یاد ہو گا‘ نیب نے چند ماہ قبل ڈاکٹر عاصم کو تحویل میں لیا تھا‘ نیب آج تک اس گرفتاری کو ہضم نہیں کر سکی‘ کیا یہ اس تجربے کے بعد ملک کے 300 بااثر ترین ملزم گرفتار کرے گی؟ کیا یہ آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور حمزہ شہباز کو طلب کرنے کی جرأت کرے گی؟ کیا یہ رانا مشہود‘ ضعیم قادری‘ شرجیل میمن اور علیم خان کو گرفتار کر سکے گی؟ اگر ہاں تو کیا ان گرفتاریوں کو جمہوریت پر شب خون قرار نہیں دیا جائے گا‘ کیا انہیں نظام کو ڈی ریل کرنے کی سازش نہیں سمجھا جائے گا؟ ہمیں آج کھلے دل سے یہ بھی ماننا ہو گا‘ ہمارے ملک میں جمہوریت‘ سیاست اور نظام کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور یہ مقصد چند لوگوں اور ان کے خاندانوں کی حفاظت ہے‘ یہ لوگ کچھ بھی کر لیں‘ یہ ملک کو لوٹ کر کھا جائیں یا یہ دس بیس لوگوں کو سڑکوں پر مار دیں‘ ان کو ہاتھ لگانے کا مطلب جمہوریت کی توہین ہوتا ہے! کیا یہ زیادتی نہیں‘ کیا یہ ظلم نہیں‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا‘ نیب کے موجودہ چیئرمین قمرزمان کرپشن کے خلاف بہت زور مار رہے ہیں‘ آپ کو ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں ’’نو ٹو کرپشن‘‘ کے جو بینر اور چاکنگ نظر آتی ہے‘ یہ اسی شخص کا کمال ہے‘ یہ کرپشن کے خلاف جہاد کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ’’نو ٹو کرپشن‘‘ کا شعور بھی پیدا کر رہے ہیں لیکن ایک خاص حد کے بعد ان کے پر بھی جلنے لگتے ہیں‘ کیا یہ غلط ہے‘ یہ اگر آج 150 فائلیں کھول دیں تو ان کے ساتھ بھی وہ سلوک ہو گا جو خیبر پختونخواہ میں جنرل حامد خان کے ساتھ ہوا تھا اور اس سلوک میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف دونوں حکومت کا ساتھ دیں گی!۔
میری حکومت سے درخواست ہے‘ یہ نیب کے نظام میں تبدیلیاں ضرور کرے‘ یہ تبدیلیاں ضروری ہیں لیکن ساتھ ہی حکومت سیاست اور کرپشن کا گٹھ جوڑ بھی ڈھیلا کرے کیونکہ جب تک ایوان اقتدار سے کرپشن ختم نہیں ہو گی‘ ہم اس وقت تک چپڑاسیوں کو ایماندار اور معصوم نہیں بنا سکیں گے اور یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے‘ بدصورت اور بدبودار رخ۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…