محمدابراہیم خان آرمی پبلک سکول پشاور کاطالب علم تھا‘ یہ دسویںجماعت میں پڑھتا تھا‘ اس کا دوسرا بھائی اسد بھی اے پی ایس کا طالب علم تھا‘ دہشت گردوں نے 16 دسمبر 2014ءکو سکول پر حملہ کیا‘ محمد ابراہیم کا بھائی اسد بری طرح زخمی ہو گیا جبکہ محمد ابراہیم دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گیا‘ ابراہیم کی ریڑھ کی ہڈی میں تین گولیاں لگیں‘ دہشت گرد اسے مردہ سمجھ کر آگے بڑھ گئے‘ فوج نے آپریشن کیا‘ دہشت گرد مارے گئے‘ ریسکیو ورک شروع ہوا‘ پتہ چلا ابراہیم زندہ ہے‘ ابراہیم کو سی ایم ایچ لایا گیا‘ ابتدائی طبی امداد دی گئی‘ بچے کی جان بچ گئی لیکن چند دن بعد معلوم ہوا بچہ مفلوج ہو چکا ہے اور یہ زندگی میں اب کبھی اپنے پاﺅں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا‘ ابراہیم کے والدین دو بچوں کے علاج کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے‘ ابراہیم کے بھائی اسد کا علاج ہو گیا‘ یہ تندرست بھی ہو گیا لیکن یہ نفسیاتی مریض بن گیا جبکہ ابراہیم کی زندگی بستر تک محدود ہو کر رہ گئی‘ ابراہیم کی ماں علاج کےلئے ماری ماری پھرنے لگی‘ یہ درخواست لے کر کبھی اس دروازے پر جاتی اور کبھی اس دروازے پر لیکن کوئی اس کی بات تک سننے کےلئے تیار نہیں تھا‘ اس دوران بچے کے جسم پر زخم ابھرنے لگے‘ اس کا بدن گلنا شروع ہو گیا‘ ابراہیم کی ماں دھکے کھاتی کھاتی ملک ریاض تک پہنچ گئی‘ ملک ریاض نے ابراہیم کے علاج کا بیڑا اٹھا لیا‘ علاج کےلئے معلومات اکٹھی کی گئیں‘ پتہ چلا ابراہیم کا علاج لندن کے ہارلے سٹریٹ کلینک میں ممکن ہے‘ علاج کےلئے ابتدائی اخراجات ڈیڑھ کروڑ روپے تھے‘ ملک ریاض نے یہ رقم کلینک میں جمع کرائی‘ ابراہیم کی فیملی کو لندن میں کرائے پر مکان لے کر دیا اور بچے کا علاج شروع ہو گیا‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا‘ ابراہیم اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو گیا‘ یہ اب چلتا بھی ہے‘ بولتا بھی ہے اور سکول بھی جاتا ہے۔
یہ کہانی اگر یہاں پر ختم ہو جاتی تو یہ چیریٹی کی ایک عام معمولی سی کہانی ہوتی‘ ملک میں ایسی سینکڑوں کہانیاں موجود ہیں‘ آپ اگر تلاش کریں گے تو آپ کو ایسے سینکڑوں ہزاروں مریض مل جائیں گے جن کا ہاتھ کسی نہ کسی مخیر شخص نے تھاما‘ اللہ نے کرم کیا اور وہ دوبارہ نارمل زندگی گزارنے لگے‘ ابراہیم کی کہانی بھی ان سینکڑوں کہانیوں جیسی ایک کہانی ہوتی اگر اس میں ایک ڈرامائی موڑ نہ آتا اور وہ ڈرامائی موڑ عیادت تھی‘ ملک ریاض نے محمد ابراہیم کی عیادت شروع کر دی‘ یہ لندن جاتے‘ ہارلے سٹریٹ کلینک میں ابراہیم سے ملتے‘ ڈاکٹروں سے ملاقات کرتے اور ابراہیم کی پراگریس رپورٹ دیکھتے‘ ملک ریاض کو ان وزٹس کے دوران معلوم ہوا ریڑھ کی ہڈی کے مسائل دنیا میں مشکل ترین اور مہنگے ترین طبی عارضے ہیں‘ یہ جس شخص کو لگتے ہیں اس کی زمین جائیداد بک جاتی ہے‘ ملک ریاض کو معلوم ہوا بیس کروڑ لوگوں کے ملک پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی اور سپائنل کارڈ کے ایشوز کا کوئی جدید ہسپتال موجود نہیں‘ ملک میں جس شخص کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے معذوری اس شخص کا مقدر بن جاتی ہے‘ انہیں معلوم ہوا ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ایک آدھ سرجن کے بس کی بات نہیں ہوتا‘ اس کےلئے سرجنوں کی پوری ٹیم درکار ہوتی ہے اور پاکستان میں ٹیکنالوجی موجود ہے اور نہ ہی سرجن۔ ملک ریاض نے ہارلے سٹریٹ کلینک کی انتظامیہ سے گفت و شنید شروع کی‘ انہیں پاکستان میں مکمل سہولتیں فراہم کرنے کا یقین دلایا اور انہیں پاکستان میں سپائنل سرجری کےلئے قائل کر لیا‘ لندن میں دو دن پہلے ہارلے سٹریٹ کلینک اور بحریہ ٹاﺅن کے درمیان معاہدہ ہو گیا‘ معاہدے کے مطابق ہارلے سٹریٹ کے 25 ڈاکٹر پاکستان آئیں گے‘ یہ ملک میں سپائنل سرجری کے یونٹ بنائیں گے‘ شروع میں یہ سہولت بحریہ گالف سٹی اسلام آباد‘ بحریہ انکلیو اسلام آباد اور بحریہ آرچرڈ لاہور میں دستیاب ہو گی‘ منصوبے پر شروع میں پانچ ارب روپے خرچ ہوں گے‘ یہ رقم بھی آہستہ آہستہ بڑھتی جائے گی اور یہ سہولت بھی ملک کے دوسرے حصوں تک پھیلتی جائے گی‘ یہ میڈیکل یونٹ جدید ترین ٹیکنالوجی پر مشتمل ہو گا‘ وہ تمام مشینیں اور تھیٹرز تین ماہ میں پاکستان میں بنائے جائیں گے جو اس وقت ہارلے سٹریٹ کلینک میں ہیں اور جن کےلئے دنیا بھر سے سینکڑوں مریض کروڑوں ڈالر خرچ کر کے برطانیہ جاتے ہیں‘ یہ کلینک‘ یہ یونٹ جب بن جائیں گے تو آپ خود اندازہ کیجئے اس سے ابراہیم جیسے کتنے ایسے مریضوں کا بھلا ہو گا جو حادثوں کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی کے عارضوں کا شکار ہوئے‘ پاﺅں پر کھڑا ہونا بھول گئے اور معذوری ان کی زندگی کا حصہ بن گئی‘ یہ یونٹ اگر بن جاتے ہیں تو یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہوں گے جس کا ثواب ملک ریاض کے ساتھ ساتھ محمد ابراہیم کو بھی ملتا رہے گا کیونکہ اگر یہ بچہ زخمی نہ ہوتا‘ اگر یہ ملک ریاض تک نہ پہنچتا‘ اگر ملک ریاض اسے ہارلے سٹریٹ کلینک میں داخل نہ کراتے اور اگر یہ اس کی عیادت کےلئے نہ آتے تو شاید یہ منصوبہ کبھی شروع نہ ہوتا اور شاید کبھی ان مریضوں کی زندگی میں آس اور امید کا چراغ نہ جلتا جو اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہونے‘ چلنے‘ پھرنے‘ دوڑنے‘ بولنے اور ہاتھ ملانے کی امید تک کھو بیٹھے ہیں اور آپ اللہ کا کرم بھی ملاحظہ کیجئے‘ اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز اس شخص کو بخشا جسے لوگ مذاق میں ریاض ٹھیکیدار کہتے ہیں‘ جسے ملک کی ہر طاقتور شخصیت اور ہر طاقتور ادارے نے رگڑا لگانے اور ملک سے بھگانے کی پوری کوشش کی اور جو 25سال سے لوگوں سے صرف ایک سوال پوچھ رہا ہے ”میرا جرم کیا ہے‘ میرا قصور کیا ہے‘ میں نے کیا غلط کیا ہے“ اور جس نے ملک میں لیونگ اور کنسٹرکشن کا پورا تصور بدل دیا لیکن لوگ اس کے باوجود اس کے خلاف ہیں‘ مخالفت ضرور ہونی چاہیے مگر اس کی کوئی نہ کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیے‘ وہ وجہ کہاں ہے؟۔
یہ کہانی اگر صرف یہاں تک محدود رہتی ہے تو بھی شاید کوئی کمال نہیں ہوگا‘ ہمارے ملک میں ایسے درجنوں منصوبے شروع ہوئے‘ واہ واہ بھی ہوئی لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ منصوبے ماضی میں جذب ہو گئے‘ ہم ملک میں ویلفیئر کا کوئی بھی ادارہ زیادہ سے زیادہ تیس سال چلا پاتے ہیں‘ یہ ادارہ بنانے والے کے انتقال کے چند سال بعد آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتا ہے اور جوں ہی ادارے کی دوسری نسل بوڑھی ہوتی ہے‘ ادارہ مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے‘ یہ یونٹ بھی اگر یہاں تک محدود رہتا ہے تو یہ بھی چند سال بعد اپنی افادیت کھو بیٹھے گا چنانچہ میری تین درخواستیں ہیں‘ ایک درخواست حکمرانوں سے ہے‘ دوسری ملک کے امراءسے اور تیسری ملک ریاض سے۔ حکمرانوں کو ملک ریاض کے تجربے سے سیکھنا چاہیے‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں ہارلے سٹریٹ کلینک کے مریض رہے ہیں‘ میاں نواز شریف نے یہاں سے دل کا آپریشن کرایا تھا جبکہ آصف علی زرداری یہاں سے کمر کے درد کا علاج کراتے ہیں‘ ملک کے دوسرے سیاستدانوں‘ بیورو کریٹس اور جرنیل حضرات بھی اس کے مریض رہے ہیں‘ یہ لوگ ملک ریاض جیسا ”اینی شیٹو“ کیوں نہیں لیتے؟ یہ لوگ دنیا کے تمام بڑے کلینکس کو پاکستان میں شاخیں کھولنے کی دعوت دیں‘ یہ انہیں سرکاری زمینیں دیں‘ بینکوں سے قرضے لے کر دیں اور صحت کے بجٹ سے امداد دیں‘ یہ کلینکس ملک میں اپنی شاخیں قائم کریں‘ حکومت بس انہیں پابند کرے ‘یہ تیس فیصد مریضوں کا مفت علاج کریں گے‘ حکومت ضرورت مند مریضوںکے تخمینے کےلئے ایک باڈی بنا دے‘ یہ باڈی جس مریض کا نام فائنل کرے ہارلے سٹریٹ کلینک جیسے ادارے اس مریض کو مفت سروسز فراہم کریں‘ کیا یہ ممکن نہیں؟ دوسرا‘ ملک میں ملک ریاض کے پائے کے سو امراءموجود ہیں‘ یہ لوگ کھرب پتی ہیں‘ میں ایک ایسے کاروباری شخص کو جانتا ہوں جس کو بینک روزانہ دو کروڑ مارک اپ دیتے ہیں‘ یہ شخص اگر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے تو بھی اس کی دولت میں روزانہ دو کروڑ روپے کا اضافہ ہو جائے گا‘ یہ سو لوگ اس قسم کا کام کیوں نہیں کرتے؟ تعلیم اور صحت پاکستان کے دو بڑے مسئلے ہیں‘ یہ لوگ تعلیم کے اعلیٰ ادارے بنائیں‘ یونیورسٹیاں اور کالج بنائیں یا سرکاری سکول ”ٹیک اوور“ کرلیں‘ یہ لوگ سرکاری ہسپتالوں اور صحت کے بنیادی مراکز کی ذمہ داری بھی اٹھا سکتے ہیں‘ حکومت مختلف اضلاع کے سرکاری ہسپتال مختلف شخصیات کے حوالے کر دے‘ حکومت ان ہسپتالوں کا بجٹ بھی ان لوگوں کو دے دے‘ یہ لوگ اس بجٹ میں ذاتی رقم ڈالیں اور ہسپتالوں کی حالت بدل دیں‘ یہ لوگ جدید ہسپتال بھی بنائیں‘ اس سے ملک میں تعلیم اور صحت دونوں مسئلے بھی حل ہو جائیں گے اور ان لوگوں کا ”کنٹری بیوشن“ بھی سامنے آ جائے گا‘ یہ لوگ اگر اپنی خدمات کے صلے میں ان ہسپتالوں اور ان تعلیمی اداروں کو اپنے نام سے منسوب کرنا چاہیں تو حکومت انہیں یہ اجازت دے دے‘ اس سے ان لوگوں کی عزت افزائی بھی ہو گی اور ان کی فیملی کے لوگ بھی ان کے انتقال کے بعد ان اداروں کی ”ٹیک کیئر“ کرتے رہیں گے اور میری تیسری درخواست ملک ریاض سے ہے۔
ملک میں بین الاقوامی سطح کا صرف ایک ہسپتال ہے‘ یہ ہسپتال 1985ءمیں پرنس کریم آغا خان نے بنوایا تھا اور یہ ان کی نسبت سے آغا خان ہسپتال کہلاتا ہے‘ اس ہسپتال کی بیک گراﺅنڈ بہت دلچسپ ہے‘ 1982ءمیں پرنس کریم آغا خان کی امامت کے 25 سال پورے ہوئے‘ دنیا بھر میں امامت کی سلور جوبلی منائی گئی‘ کراچی کی آغا خان کمیونٹی نے پرنس کریم آغا خان کے وزن کے برابر چاندی اور سونا صدقہ کیا‘اس سونے اور چاندی کی مالیت 45 کروڑ ڈالر تھی‘ اس رقم سے کراچی میں 1985ءمیں آغا خان ہسپتال بنایا گیا‘ یہ اس وقت ملک کا جدید ترین ہسپتال ہے‘ ملک ریاض کو بھی اللہ تعالیٰ نے وسائل‘ انرجی اور جذبہ عنایت کیا ہے‘ یہ اگر اپنی باقی زندگی ہیلتھ سیکٹر کو دے دیں‘ یہ ”ملک ریاض انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز“ کے نام سے ملک کا سب سے بڑا اور جدید ہسپتال‘ ملک کا سب سے بڑا ہیلتھ کالج اور ملک کی سب سے بڑی لیبارٹری بنائیں‘ یہ ادویات سازی کا ایک ایسا ادارہ بھی قائم کریں جس میں مہلک امراض کے علاج دریافت کئے جائیں تو یہ ان کا بحریہ ٹاﺅن سے بڑا کارنامہ ہو گا اور یہ کارنامہ ان کا نام ان کے بعد بھی زندہ رکھے گا‘ آغا خان اگر پیرس میں رہ کر اپنے کراچی کو ملک کا سب سے بڑا ہسپتال دے سکتے ہیں تو ملک ریاض پاکستان میں رہ کر ہیلتھ سائنسز کا بڑا ادارہ کیوں نہیں بنا سکتے‘ میری ملک صاحب سے درخواست ہے‘ آپ ایک بار اس پر بھی ضرور سوچئے گا۔
ملک ریاض انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز
7
فروری 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں