وہ صبح نکلتا تھا اور سورج ڈوبنے کے بعد واپس آتا تھا‘ وہ ہوٹل پہنچ کر گرم باتھ لیتا تھا اور لمبے گیلے بال جھٹکتا ہوا ٹیرس میں بیٹھ جاتا تھا‘ ٹیرس میں اس کے دو شغل تھے‘ وہ ”شغل مے“ کرتا تھا اور کھانا کھاتا تھا اور رات جب گہری ہو جاتی تھی تو وہ لڑکھڑاتے قدموں سے کمرے میں جاتا تھا اور بیڈ پر گر جاتا تھا‘ وہ ہمارے ہوٹل کا واحد مسافر تھا جس کا دروازہ 24 گھنٹے کھلا رہتا تھا‘ وہ رات سوتے وقت دروازہ بند نہیں کرتا تھا اور وہ جب صبح اٹھ کر جنگل میں جاتا تھا تو اس وقت بھی اس کا دروازہ کھلا رہتا تھا‘ ہم ہوٹل میں 14 لوگ تھے‘ ہم سب ” بلیک فاریسٹ“ کی سیر کےلئے آئے تھے‘ ہوٹل جنگل میں تھا‘ ہمارے ہوٹل سے جنگل کےلئے سات راستے نکلتے تھے‘ یہ راستے مسافروں کو ایسی سمتوں میں لے جاتے تھے جن پر جھیلیں بھی تھیں‘ گھپ سیاہ جنگل بھی اور غاروں کے ان دیکھے سلسلے بھی‘ ہم سب جنگل میں جاتے تھے مگر جمی کا انداز سیاحت عجیب تھا‘ وہ ناشتے کے بعد نکلتا تھا اور شام کو واپس آتا تھا‘ وہ ہم سب سے الگ تھلگ بھی رہتا تھا‘ ہوٹل کی جرمن مالکہ نے ایک رات لان میں ”بون فائر“ کا بندوبست کیا‘ وہ بھی اس رات ہمارے ساتھ بیٹھا تھا‘ میں اس کے ساتھ بیٹھ گیااور گپ شپ شروع کر دی‘ پتہ چلا وہ امریکی ہے‘ والدین یہودی تھے لیکن وہ پہلے عیسائی ہوا‘ پھر بودھ مت قبول کیا‘ پھر کسی ہندو جوگی کے قابو آ گیا اور آج کل وہ مکمل لادین ہے‘ میں نے پاکستانی نفسیات کے مطابق اس سے پوچھا ” آپ کرتے کیا ہیں“ جمی نے جواب دیا ” میں سیاحتی کمپنیوں کےلئے مضامین لکھتا ہوں‘ پیسے جمع کرتا ہوں اور سفر کرتا ہوں“ جمی نے بتایا‘ وہ 70 ممالک اور 150 حیران کن جگہوں کی سیر کر چکا ہے‘ یہ رویہ غیر معمولی تھا‘ ہم انسان ایک ”سیٹل لائف“ گزارنا چاہتے ہیں لیکن وہ عام لوگوں سے بالکل مختلف تھا‘ وہ ایک غیر روایتی اور غیر معمولی زندگی گزار رہا تھا‘میں نے اس سے پوچھا ”تمہارے اس پاگل پن کی وجہ کیا ہے؟“ وہ ہنسا اور بولا ” میں ایک عام جاہل انسان تھا لیکن پھر میں نے ایک دن کسی میگزین میں ایک چینی محاورہ پڑھا اور میری زندگی بدل گئی اور میں غیر معمولی اور غیر روایتی زندگی گزارنے لگا“۔ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے پوچھا ”وہ محاورہ کیا تھا“ وہ بولا ” چینی محاورہ تھا ”سفر دنیا کی بہترین یونیورسٹی ہے“ یہ فقرہ سیدھا میرے دل پر لگا‘ میں نے نوکری سے استعفیٰ دیا‘ سامان پیک کیا‘ بینک سے سارے پیسے نکالے اور سفر پر روانہ ہو گیا‘ میں اب سفر کرتا ہوں اور ان سفروں کی کہانیاں اور رودادیں لکھتا ہوں اور مطمئن زندگی گزارتا ہوں“۔
جمی اگلے دن سوئٹرز لینڈ چلا گیا لیکن اپنا تاثر ہمیشہ کیلئے چھوڑ گیا‘ میں جب بھی دنیا کے ان دیکھے اور منفرد شہروں کی طرف روانہ ہوتا ہوں تو جمی اور اس کے منہ سے نکلا محاورہ ” سفر دنیا کی بہترین یونیورسٹی ہے“ میرے ساتھ سفر کرتا ہے۔ میں نے ہر بار یہ محاورہ سچ ہوتے دیکھا‘ یہ حقیقت ہے ہم سفر سے جو کچھ سیکھتے ہیں وہ ہم کسی دوسرے عمل سے نہیں سیکھ سکتے‘ میں نے ازبکستان کے اس سفر سے بھی چند نئی چیزیں سیکھیں‘ مثلاً پاکستانی ثقافت اور زبان پر ازبکستان کے گہرے اثرات ہیں‘ ہماری اردو‘ پشتو‘ پنجابی‘ بلوچی اور سندھی میں ازبک زبان کے پانچ ہزار الفاظ ہیں‘ ہمارے کھانے بھی مشترک ہیں مثلاً پلاﺅ ازبکستان سے ہندوستان آیا ‘ یہ لوگ آج بھی پلاﺅ بڑے شوق سے بناتے ہیں اور کھاتے ہیں‘ یہ شادی کی تقریب کا آغاز پلاﺅ سے کرتے ہیں‘ یہ صبح سویرے تمام مہمانوں کو ناشتے میں پلاﺅ کھلاتے ہیں‘ نان کا لفظ اور نان دونوں ازبکستان سے آئے‘ یہ لوگ چائے کو چائے کہتے ہیں اور یہ چائے کے روزانہ ساٹھ ستر کپ پی جاتے ہیں لیکن ان کی چائے ہم سے مختلف ہوتی ہے‘ یہ گرین ٹی اور قہوے کو چائے کہتے ہیں چنانچہ ازبک چائے معدے کےلئے بہت اچھی ہوتی ہے‘ یہ کباب کو کباب ہی کہتے ہیں اور ان کے کباب ہمارے کبابوں جیسے ہوتے ہیں‘ یہ سلاد کو سالاد کہتے ہیں‘ ہم حلیم کو کشمیری ڈش سمجھتے تھے جبکہ یہ ازبک ڈش ہے اور یہ آج بھی ازبکستان میں بنائی اور کھائی جاتی ہے‘ یہ لوگ حلیم کو حلیم ہی کہتے ہیں‘ یہ لوگ سوجی اور جو کا حلوہ بناتے ہیں‘ یہ سوجی کو بڑے پتیلے میں ڈال کر اسے چولہے پر رکھتے ہیں اور اسے پوری رات گھوٹتے رہتے ہیں‘ یہ حلوہ سمالک کہلاتا ہے‘ میں بچپن میں یہ حلوہ اپنے گاﺅں میں کھاتا تھا‘ ہم پنجابی میں اسے ”کڑاہی“ کہتے ہیں‘ سمالک اور کڑاہی دونوں کے بنانے کا طریقہ یکساں ہے اور آپ اعتراض‘ کیونکہ‘ لیکن‘ البتہ‘ مکان‘ دکان‘ مسجد‘ قلم‘ کاغذ‘ رحمت‘ دیوار‘ قلعہ‘ شوربہ اور پیالہ جیسے الفاظ دیکھئے‘ یہ الفاظ بھی اردو اور ازبک زبان میں مشترک ہیں‘ یہ روایات اور الفاظ ہزار سال کے اس رابطے کا نتیجہ ہیں جو ماضی میں ہمارے اور ازبک خطے کے درمیان موجود تھا‘ پاکستان کے چودہ بڑے شہر شاہراہ ریشم پر واقع تھے‘ ملتان اور بخارہ اور سمرقند کے درمیان زمینی روٹ تھا‘ آپ اگر ازبکستان جائیں تو آپ کو سمرقند‘ بخارہ اور خیوا کے قلعوں‘ محلات اور مدارس میں نیلے اور سبز رنگ کی چھوٹی ٹائلیں نظر آئیں گی‘ یہ ٹائلیں ملتان سے ایران‘ افغانستان اور ازبکستان پہنچیں اور ان سے آج بھی ملتان کی خوشبو آتی ہے‘ ہندوستان کو تاریخ میں تین بڑے ازبک فاتحین بھی ملے‘ خوارزم شاہ ہندوستان آیا اور پنجاب اور سندھ فتح کیا‘ امیر تیمور ہندوستان آیا اور دہلی تک کا علاقہ فتح کیا‘ ظہیرالدین بابر ہندوستان آیا اور ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی‘ امام ترمذی‘ بہاﺅالدین نقش بندی‘ الخوارزمی اور الیبرونی نے بھی ہندوستان پر گہرے اثرات چھوڑے‘ اسداللہ غالب کے پڑدادا بھی ازبکستان سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ تاشقند سے ہندوستان آئے چنانچہ ہمارے ازبکستان سے گہرے اور تاریخی تعلقات ہیں مگر افسوس ہم یہ تعلقات آگے نہ بڑھا سکے‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی ازبکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے ساتھ ہمارا وقت کا کوئی فرق نہیں‘ پاکستان اور ازبکستان کی گھڑیوں میں ایک وقت ہوتا ہے‘یہ ہم سے دو گھنٹے کے فاصلے پر بھی واقع ہے‘ ازبکستان کے پاس بجلی اور گیس دونوں وافر مقدار میں ہیں‘ ہمیں یہ دونوں درکار ہیں لیکن ہم تعلقات نہیں بڑھا رہے‘ ازبک ائیر لائین پچھلے سال تک پاکستان آتی تھی اور لوگ چالیس ہزار روپے میں پاکستان سے ازبکستان پہنچ جاتے تھے لیکن ازبک ائیر لائین نے پاکستان کا آپریشن بند کر دیا‘ پاکستان کو یہ آپریشن دوبارہ شروع کرانا چاہیے‘ ویزوں کے معاملے میں بھی دونوں ملک سرد مہری کا شکار ہیں‘ پاکستان ایمبیسی ازبک شہریوں کو ویزے نہیں دیتی‘ جواب میں ازبک حکومت نے بھی ویزہ پالیسی سخت کر دی‘ یہ پالیسی بھی نرم ہونی چاہیے‘ پاکستان کو ہمسایہ ممالک کے ساتھ سیاحتی تعلقات بڑھانے چاہئیں‘ ہم کنوئیں کے مینڈک بن چکے ہیں‘ ہم جب تک دوسرے معاشروں میں جھانک کر نہیں دیکھیں گے ہمیں دنیا اور زندگی سمجھ نہیں آئے گی‘ حکومت معاشرے کو کھولے‘ یہ سنٹرل ایشیا اور سارک ممالک کےلئے نئی ویزہ پالیسی بنائے‘ ہم شدید لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں جبکہ ازبکستان کے پاس بجلی فالتو ہے‘ ازبکستان افغانستان کو بجلی فراہم کر رہا ہے‘ کابل تک ٹرانسمیشن لائین موجود ہے‘ ہم ازبکستان سے سستی بجلی خرید سکتے ہیں‘ ہمیں زیادہ لمبی لائین بھی نہیں بچھانی پڑے گی‘ ازبکستان ” لینڈ لاکڈ“ ملک ہے‘ ہم کراچی اور گوادرمیں اسے سہولت دے سکتے ہیں‘ ازبکستان میں کاروبار کے وسیع مواقع موجود ہیں‘ حکومت تاجروں اور صنعت کاروں کوسہولتیں دے رہی ہے‘ ہمارے صنعت کار وہاں فیکٹریاں لگا سکتے ہیں‘ ازبکستان سبزیوں اور فروٹس میں خودکفیل ہے‘ ہم سبزی اور فروٹ کی کارگو سروس شروع کر سکتے ہیں‘ یہ دونوں ملک مل کر بہت آگے بڑھ سکتے ہیں لیکن اس کےلئے سنجیدہ کوشش کرنا ہو گی‘ ہماری حکومت کو چاہیے یہ ازبکستان میں ایک دو پاکستانیوں کو اعزازی قونصلر تعینات کر دے‘ یہ لوگ پاکستان اور ازبکستان کو قریب لے آئیں گے‘ ڈاکٹر رازق داد ازبکستان میں پاکستانی تاجر ہیں‘ یہ دو دہائیوں سے وہاں آباد ہیں‘ یہ روسی اور ازبک زبانیں جانتے ہیں‘ یہ مقامی لوگوں اور سیاستدانوں میں بھی مقبول ہیں‘ ہماری حکومت ان کی مدد لے سکتی ہے‘ ڈاکٹر صاحب یہ خدمات فی سبیل اللہ سرانجام دیں گے۔
مجھے ازبک ڈائننگ ٹیبل نے بہت متاثر کیا‘ یہ لوگ کھانے پینے کے شوقین ہیں‘ یہ گھر میں موجود کھانے کی تمام اشیاءمیز پر رکھ دیتے ہیں‘ یہ لوگ دو دو گھنٹے کھاتے ہیں مگر اس کے باوجود صحت مند رہتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ان کی خوراک قدرتی اور سادہ ہوتی ہے‘ یہ سلاد اور فروٹ زیادہ کھاتے ہیں‘ یہ کھانے کے دوران مسلسل گرین ٹی بھی پیتے ہیں‘ یہ آلو‘ گندم‘ چاول‘ گھی اور تیز مصالحے استعمال نہیں کرتے‘ مین کورس یا مین ڈش صرف ایک ہوتی ہے‘ باقی سوپ‘ سلاد‘فروٹ‘ جوس اور ڈبل روٹی کے ٹکڑے ہوتے ہیں‘ یہ کھانے کے دوران ہنستے کھیلتے بھی ہیں اور موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں‘ ازبک لوگ ریلکیس بھی رہتے ہیں‘ یہ خود بھی خوش رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھتے ہیں‘ ہم اگر سیکھنا چاہیں تو ہم ازبک قوم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں چنانچہ ہمیں ازبکستان کی طرف کھلنے والی تمام سرحدیں کھولنی چاہئیں تا کہ ہمارے لوگ بھی دیکھ سکیں‘ سفر دنیا کی کتنی بڑی یونیورسٹی ہے اور یہ یونیورسٹی انسان کو کس طرح سکھاتی ہے۔