اسلام آباد میں ہفتے20 فروری کی صبح ایک ایسا لرزہ خیز واقعہ پیش آیا جس نے ہر صاحب دل کو دہلا کر رکھ دیا‘ سیکٹر جی سکس تھری آبپارہ کے ایک مکان میں محمد فاروق خٹک خاندان کے ساتھ رہتے تھے‘ یہ پٹرولیم کی کمپنی میں ملازم تھے‘ خٹک صاحب کی عمر 42 سال جبکہ ان کی بیوی کوثر شاہدہ 35 برس کی تھیں‘ میاں بیوی کے چار بچے تھے‘ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا‘ بیٹے کا نام رافع عمر گیارہ سال‘ بیٹی عزا عمر 8 سال‘ راحیلہ عمر سات سال اور رانیہ عمر پانچ سال‘ میاں بیوی کے آپس میں تعلقات ٹھیک نہیں تھے اور لڑتے جھگڑتے رہتے تھے‘ ہفتے کی صبح خاوند نے بچوں کو لیک ویو پارک کی سیر کےلئے تیار کیا‘ بچے تیار ہو کر ناشتے کی میز پر بیٹھ گئے مگر میاں بیوی کے درمیان اچانک لڑائی شروع ہو گئی‘ بیوی کا کہنا تھا خاوند بچوں کو سیر کے بہانے ماں سے دور کر رہا ہے‘ یہ بچے جب ماں سے دور ہو جائیں گے تو فاروق خٹک بیوی کو طلاق دے دے گا جبکہ خاوند کا کہنا تھا ”میں بچوں کو صرف سیر کےلئے باہر لے جانا چاہتا ہوں“ یہ بات چلتے چلتے بڑھ گئی یہاں تک کہ بیوی کوثر شاہدہ طیش میں آ گئی‘ وہ اندر گئی‘ پستول نکالا‘ باہر آئی اور خاوند کو گولی مار دی‘ خاوند گر کر مر گیا‘ بیوی نے اس کے بعد اپنے بیٹے رافع کو گولی ماری‘ پھر ایک ایک کر کے تینوں بیٹیوں کو گولی ماردی‘ یہ پانچوں فرش پر گر گئے تو کوثر شاہدہ نے پستول کنپٹی پر رکھا‘ کلمہ پڑھا اور خود کو بھی گولی مار لی‘ یہ بھی گری اور مر گئی‘ فائرنگ کی آواز سن کر محلے کے لوگ اکٹھے ہوئے‘ مکان کے اندر داخل ہوئے‘ فرش پر محمد فاروق خٹک‘ تین بچیوں اور کوثر شاہدہ کی لاشیں پڑی تھیں جبکہ بیٹا رافع زخمی تھا‘ رافع کے بازو پر گولی لگی تھی‘ بیٹے نے گولی لگنے کے بعد ماں کے سامنے مرنے کی ایکٹنگ کی‘ ماں نے اسے مردہ سمجھ کر دوسری گولی نہیں چلائی یوں بیٹا رافع بچ گیا۔
یہ واقعہ ہفتے اور اتوار کے دن ٹاک آف دی ٹاﺅن تھا‘ یہ واقعہ جس نے بھی سنا اس کا دل دہل کر رہ گیا‘ آپ خود اندازہ لگائیے‘ آپ اگر والدین ہیں ‘ آپ کی چھوٹی معصوم بچیاں ہیں‘ آپ گیارہ سال کے بیٹے کے والدین بھی ہیں اور آپ یہ واقعہ سنتے ہیں تو کیا یہ آپ کو متاثر نہیں کرے گا؟ آپ یقینا اضطراب کا شکار ہو جائیں گے‘ آپ یقین کریں مجھے ہفتے اور اتوار کی رات نیند نہیں آئی‘ میں اضطراب میں کبھی اندر بیٹھتا تھا اور کبھی لان میں ٹہلنے لگتا تھا‘ میں لمبی واک کےلئے بھی نکل گیا‘ میں تین گھنٹے واک کرتا رہا لیکن اس کے باوجود اضطراب ختم نہ ہوا‘ آپ لوگ بھی صاحب اولاد ہیں‘ آپ اپنی اولاد کے چہرے دماغ میں لائیں اور اس کے بعد خود سے سوال کریں‘ کیا کوئی ماں یا کوئی باپ اتنا سنگدل ہو سکتا
ہے؟ آپ کا جواب یقینا نہیں میں ہو گا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے‘ انسان جذباتی جانور ہے‘ یہ جذبات میں ایسے ایسے خوفناک کام کر جاتا ہے جن کا جانور بھی تصور نہیں کر سکتے‘ انسان میں نفرت اور محبت دو تیزابی جذبے ہیں ‘ یہ جذبے اگر کنٹرول میں رہیں تو یہ انسان کی کامیابی کی ضمانت بن جاتے ہیں‘ انسان نے آج تک جتنی ترقی کی اس کی بنیاد نفرت کا جذبہ تھا یا پھر محبت کا لیکن یہ جذبے جب آﺅٹ آف کنٹرول ہوتے ہیں تو یہ تابکار ہو جاتے ہیں اور یہ پھر دائیں بائیں موجود ہر چیز جلا کر راکھ بنا دیتے ہیں‘ ہم اگر اطمینان سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں نفرت اور محبت دونوں جذبوں کو ”ہینڈل“ کرنا سیکھنا چاہیے‘ ہم ان دوجذبوں کو ہینڈل کرنا سیکھ جائیں تو ہماری زندگی کے زیادہ تر مسائل ختم ہو جائیں اور فاروق خٹک اور کوثر شاہدہ بھی نفرت کو ہینڈل نہ کر سکے چنانچہ خاندان سمیت مارے گئے‘ محمد فاروق خٹک اور کوثر شاہدہ کا دوسرا مسئلہ بے جوڑ شادی تھی‘ ہمارے ملک میں شادی کا نظام درست نہیں‘ ہمارا معاشرہ سینکڑوں برس سے حیاءاور مشرقی روایات کی تلوار سے لاکھوں کروڑوں خاندانوں کو ذبح کر رہا ہے‘ ہم آج بھی شادی کےلئے بچیوں کی رضا مندی ضروری نہیں سمجھتے‘ شادی سے قبل لڑکی اور لڑکے کی ملاقات بعید از قیاس ہے‘ ہماری یہ روایات ملک میں بے جوڑ شادیوں کا لشکر پیدا کر رہی ہیں‘ لوگوں کی عائلی زندگی بے سکونی کا شکار ہے‘ ہم بے جوڑ شادیوں کی حماقت کو مشرقی روایات بھی کہتے ہیں اور اسلام بھی سمجھتے ہیں‘ یہ جواز غلط ہے‘ اسلام میں تو عورت مرد کا رشتہ مانگ سکتی ہے‘ آپ حضرت خدیجہ ؓ کے نبی اکرم ساتھ نکاح کی تفصیل پڑھ لیجئے‘ آپ کو اسلام میں شادی کا پورا تصور سمجھ آ جائے گا‘ آپ اس کے بعد ترکی سے لے کر مراکش تک پوری اسلامی دنیا کا جائزہ لے لیجئے‘ آپ کو دنیا کے کسی اسلامی ملک میں پاکستان جیسی ”اسلامی روایات“ نہیں ملیں گی‘ ہم جن کو اسلامی روایات سمجھ رہے ہیں‘ یہ برصغیر کے ہندو راجپوتوں کی رسمیں تھیں‘ راجپوت راجپوتوں میں شادی کرتے تھے‘ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کا منہ نہیں دیکھتے تھے اور یہ ڈولی پر جاتی تھی اور سسرال سے اس کی صرف لاش واپس آتی تھی‘ بھارت میںآج بھی ایسے راجپوت گھرانے موجود ہیں جن میں بیویاں پوری زندگی خاوند کے سامنے گھونگھٹ نکالتی ہیں اورآخری سانس تک خاوند سے مخاطب نہیں ہوتیں‘ اسلام اس سے بالکل مختلف مذہب ہے‘ یہ بیوی کو خاوند سے زیادہ حقوق دیتا ہے چنانچہ ہم اگر اپنے خاندانوں کو اسلام آباد جیسے واقعات سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں رشتے داریوں کی روایات تبدیل کرنا ہوں گی‘ ہمیں لڑکے اور لڑکی کو اتنی لبرٹی دینا ہو گی کہ یہ ایک دوسرے کو دیکھ کر فیصلہ کر سکیں” کیا ہم ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں؟“ ہم لوگ طلاق کو بھی برا سمجھتے ہیں‘ طلاق بری چیز ہے بھی لیکن کیا یہ قتل اور خودکشی سے زیادہ بری ہے؟ یقینا نہیں لہٰذا ہم لوگوں اور ہمارے والدین کو طلاق میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے‘ ہم جب دیکھیں ہم بے جوڑ رشتے میں پھنس گئے ہیں تو پھر ہمیں فوراً علیحدگی کا آپشن اختیار کرنا چاہیے‘ ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے ‘ طلاق میں تاخیر عموماً اسلام آباد جیسے واقعات کا باعث بنتی ہے‘ آپ زندگی میں
بے شمارایسے لوگوں کو دیکھیں گے جنہوں نے شادی کے ایک آدھ سال بعد طلاق لے لی اور یہ لوگ اس کے بعد نئی شادی کر کے”سیٹل لائف “ گزارنے لگے جبکہ ان کے مقا بلے میں وہ لوگ جو یہ سمجھتے رہے ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات ٹھیک کر لیں گے‘ وہ پوری زندگی اذیت کا شکار بھی رہے اور ان میں سے اکثر لوگ خودکشی پر بھی مجبور ہو گئے‘ ہم ہمیشہ یورپ اور امریکا میں طلاق کی بڑھتی شرح کا مذاق اڑاتے ہیں مگر ہم نے کبھی یورپ کی طلاق کو اسلام آباد جیسے واقعات کے تناظر میں نہیں دیکھا‘ وہ لوگ بھی اگر ہماری طرح طلاق کی شرح کم کرتے رہتے تو وہ بھی کوثر شاہدہ کی طرح بچوں کو گولی مارنے پر مجبور ہو جاتے‘ یورپ کے لوگ سمجھ دار ہیں‘ یہ خودکشی نہیں کرتے‘ یہ طلاق دے اور لے کر الگ ہو جاتے ہیں‘ ہمارے ملک میں عائلی جھگڑوںکی بڑی وجہ بچے بھی ہیں‘ ہم لوگ فیملی ایڈجسٹمنٹ سے پہلے بچے پیدا کر لیتے ہیں چنانچہ میاں بیوی جب اس نتیجے پر پہنچتے ہیں ہم ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتے تو یہ دو بچوں کے ماں باپ ہوتے ہیں یوں خاندان میں نئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں‘ طلاق ہو جائے تو بچوں کی ملکیت اور نان نفقہ ایشو بن جاتا ہے‘عورت بچوں کے ساتھ دوسری شادی نہیں کر سکتی‘یہ اگر کر لے تو بچوں کی پرورش مسئلہ بن جاتی ہے‘ باپ بچے لے آئے تو دوسری ماں پرانے بچوں کو قبول نہیں کرتی یوں بچے اور ماں باپ دونوں مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں‘ ہمیں اپنے جوان بچوں کو یہ سمجھانا ہو گا یہ شادی کے کم از کم دو سال تک بچوں سے پرہیز کریں‘ یہ جب تک ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں ہوتے‘ یہ بچے کو اپنے سلگتے اور غیر یقینی ماحول سے باہر رکھیں‘یہ تھیوری پرانی ہو چکی ہے بچے فیملی لائف کا بانڈ ہو تے ہیں‘ آج کل بچوں کی وجہ سے خاندان زیادہ ٹوٹ رہے ہیں۔ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی۔
مجھے آج سے بیس سال قبل کسی نے کہا تھا‘ آپ جب بھی کسی مسئلے کا شکار ہوں‘ آپ کیلنڈر سامنے رکھیں ‘اس دن کی تاریخ پر انگلی رکھیں ‘ اگلے دن کا ہندسہ دیکھیں اور اپنے آپ سے کہیں‘ آج کے دن کے بعد کل کا دن بھی آئے گا اور ہو سکتا ہے کل کا دن آج کے دن سے بہتر ہو‘ میں نے یہ مشورہ مان لیا‘ میں ہمیشہ میز پر کیلنڈر رکھتا ہوں اور میں جب بھی کسی کنفیوژن کا شکار ہوتا ہوں‘ میں آج کی تاریخ پر انگلی رکھ کر اگلا دن دیکھتا ہوں اور میرے دماغ میں اس الجھن کا حل آ جاتا ہے‘ یہ زندگی گزارنے کا آزمودہ منتر ہے‘ آپ بھی جب کسی کنفیوژن کا شکار ہوں تو آپ بھی یہ کر کے دیکھیں ‘آپ کو بھی مسئلے کا حل مل جائے گا۔محمد فاروق خٹک اور کوثر شاہدہ کو شادی سے قبل ایک دوسرے کی فطرت کو سمجھنا چاہیے تھا‘ یہ ممکن نہیں تھا تو ان لوگوں کو شادی کے کچھ عرصے بعد ایک دوسرے سے الگ ہو جانا چاہیے تھا‘ یہ بھی ممکن نہیں تھا تو یہ لوگ بچوں سے پرہیز کرتے یا پھر کم بچے پیدا کرتے اور یہ بھی اگر ممکن نہیں تھا تو پھر ان لوگوں کو ایک بار‘ صرف ایک بار کیلنڈر دیکھ لینا چاہیے تھا‘ ان کو چاہیے تھا‘ یہ دیکھ لیتے کیلنڈر 20 فروری 2015ءکو رک نہیں جاتا‘ یہ آگے بھی چل رہا ہے اور ہم زندگی کو 20 فروری پر کیوں ختم کر رہے ہیں؟۔ مجھے یقین ہے کوثر شاہدہ اگر ایک بارکیلنڈر دیکھ لیتی تو یہ بچوں اور خاوند کو قتل کرتی اور نہ ہی خود کشی کرتی اور مسائل سے نکلنے کا آخری طریقہ‘ ہجرت عائلی‘ کاروباری اور سماجی زندگی کے تمام مسائل کا شاندار حل ہوتی ہے‘ آپ زندگی میں جب بھی پھنس جائیںاور آپ کو نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملے توآپ خود کو صفر پر لے جائیں‘ آپ سمجھیں آپ فوت ہو چکے ہیں‘ آپ فوت شدہ انسان سے ایک نیا انسان پیدا کریں‘ شہر اور ملک بدلیں اور نئی زندگی شروع کر دیں۔آپ کو زندگی نیا راستے دکھا دے گی