اسلام آباد( نیوز ڈیسک)سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بلاشبہ ایک اچھے انسان تھے، تاہم ان پر سیاسی اثر و رسوخ کا دباؤ رہا۔ انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران کئی اہم واقعات رونما ہوئے جنہوں نے ملکی سیاست کا رخ موڑا۔صحافی ارشاد بھٹی کو دیے گئے انٹرویو میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان دنیا کے ان چند رہنماؤں میں سے ہیں جو غیر معمولی بیانیہ ترتیب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد سے قبل عمران خان نے کچھ مہلت مانگی تھی، اور اس حوالے سے اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم سے رابطہ بھی ہوا، جنہوں نے کہا کہ اگر جنرل باجوہ اجازت دیں تو وہ رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ مگر، جنرل باجوہ نے واضح ہدایت دی کہ معاملہ ختم کر دیا جائے۔فواد چوہدری نے انکشاف کیا کہ تحریک عدم اعتماد سے قبل انہیں عمران خان سے لاتعلقی اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا، تاہم انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے اُن پر ذاتی احسانات ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ مذہبی آدمی نہیں، لیکن عمران خان انہیں کعبہ شریف کے اندر لے کر گئے، جو ان کے لیے ایک خاص روحانی لمحہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ بنیادی طور پر انتخابات کے حق میں تھے، لیکن ان پر ان کے سسرال، شہباز شریف اور خواجہ آصف کی جانب سے یہ مؤقف مسلط کیا گیا کہ چونکہ پہلی توسیع پی ٹی آئی سے لی گئی، تو اب اگلی بار مسلم لیگ (ن) سے لینا بہتر ہوگا۔ فواد چوہدری نے مزید کہا کہ اگر اس وقت عام انتخابات کروا دیے جاتے تو نتائج خواہ کچھ بھی ہوتے، ملک میں سیاسی استحکام ضرور آ جاتا۔انٹرویو کے دوران فواد چوہدری نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ احسن بھون اور اعظم نذیر تارڑ نے جسٹس اطہر من اللہ سے ملاقات کی، اور جنرل باجوہ کو بتایا گیا کہ عمران خان انہیں برطرف کر سکتے ہیں۔
اسی دباؤ کے تحت سپریم کورٹ کے جج صاحبان رات گئے عدالتوں میں پہنچے تاکہ ملک مارشل لا سے بچایا جا سکے۔ایک اور سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے وکیل سلمان اکرم راجہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ماضی میں حدیبیہ کیس میں بھی نواز شریف کے حق میں تھے اور تمام زندگی ان کے قریب رہے۔ فواد کے مطابق سلمان راجہ اب پی ٹی آئی میں شامل ضرور ہوئے ہیں، لیکن ان کا بیانیہ اب بھی ن لیگ کے قریب تر ہے۔