یہ بہاولپور کی ایک نیم گرم شام تھی‘ شام کے سائے صحرائی پودوں اور ریگستانی درختوں پر دھیرے دھیرے اتر رہے تھے‘ میں اسلامیہ یونیورسٹی کی کینٹین پر بیٹھا تھا‘ کینٹین کی ٹاہلیوں کے پتوں میں خزاں کی زردی اتر چکی تھی اور جوں ہی ہوا پتوں کو گد گداتی تھی ‘ پتوں کا ٹہنیوں سے رشتہ ٹوٹ جاتا تھا اور وہ فضا میں لرزتے ‘ کانپتے اور ڈولتے ہوئے نیچے آ گرتے تھے‘
میرے قدموں ‘ سامنے پڑی آڑھی ترچھی میزوں اور دور تک بچھی زمین پر ایسے ہزاروں لاکھوں پتے پڑے تھے‘ میں کبھی ان پتوں کی طرف دیکھتا تھااور کبھی ہاتھ میں پکڑی آدھ کھلی کتاب کی طرف‘ یہ کتاب میرا ایک کلاس فیلو مجھے پکڑا گیا تھا‘ وہ لائبریری گیا تھا اور یہ کتاب اس نے لائبریری سے چرائی تھی لہٰذا وہ اسے لائبریری لے جانے کا رسک نہیں لے سکتا تھا‘میرا دوست جا چکا تھا اور میری زندگی میں دور دور تک بوریت پھیلی تھی‘ میں نے بوریت کے کسی ایسے ہی لمحے میں ٹانگیں سیدھی کیں‘ میز پر رکھیں اور کتاب کی ورق گردانی شروع کردی‘یہ کتاب انتہائی دلچسپ تھی‘میں نے کتاب کے درمیان میں انگلی رکھی اور پلٹ کر ٹائٹل دیکھا‘ یہ ممتاز مفتی کی ’’ الکھ نگری‘‘ تھی‘ میں نے دوبارہ صفحے کھولے اور کتاب پڑھنی شروع کردی‘ یہ ممتاز مفتی صاحب‘ الکھ نگری اور قدرت اللہ شہاب سے میرا پہلا تعارف تھا‘ میں وہاں بیٹھ کر ایک گھنٹہ کتاب پڑھتا رہا‘ میرا کلاس فیلو واپس آیا تو میں نے اس سے ’’ الکھ نگری‘‘ مانگ لی اور یہ کتاب ہوسٹل لے آیا اور میں اگلے دو دن بستر پر لیٹا رہا اور یہ کتاب پڑھتا رہا‘ کتاب ختم ہوئی تو میرے اندر ایک عجیب دکھ‘ ایک انوکھا درد بھر گیا اور مجھے اندر ہی اندر تبدیلی سی محسوس ہونے لگی‘ مجھے لگا کہیں دور دل کے کسی ان دیکھے ‘ ان چھوئے گوشے میں کسی نے کوئی چھوٹا سا دیا جلا دیا ہو۔ میں آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو اپنا بیک گراؤنڈ بتاتا چلوں ‘میں ایک دیہاتی شخص ہوں‘
میرا تعلق گجرات کے ایک پسماندہ گاؤں سے ہے‘ میرے بزرگ دینی اور دنیاوی ہر قسم کی تعلیم سے نابلد تھے‘ میں بچپن میں بیمار ہوگیا‘ مجھے تاپ چڑھتا تھا اور میں دس دس دن چارپائی پر گزار دیتا تھا‘میں سال بھر کی بیماری کے بعد بچ گیا لیکن جسمانی کمزوری کا شکار ہوگیا اور میں گاؤں کے دوسرے بچوں کی طرح بھاگ دوڑنہیں سکتا تھا‘ میں دو قدم اٹھاتا تھا تو میرا سانس الٹ جاتا تھا‘ میں جسمانی کمزوری کے باعث ڈور ڈنگر بھی نہیں چرا سکتا تھا ‘
یہ ان دنوں گاؤں کے تمام بچوں کا شغل ہوتا تھا چنانچہ میرے والدین نے مجھے گاؤں کے سکول میں داخل کرا دیا‘ یہ سکول بھی کیا تھا؟ برگد کا ایک بڑا درخت تھا‘ ایک سکول ٹیچر تھا ‘اس ٹیچر کو بچوں سمیت پورا گاؤں منشی جی کہتا تھا اور ایک ڈنڈا تھا‘میں جسمانی نقاہت اور کمزوری کے باعث ڈنڈے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا چنانچہ پڑھائی میری مجبوری بن گئی‘میرے گاؤں میں دینی تعلیم کا کوئی رواج نہ تھا‘ میرے گاؤں کے لوگوں کا خیال تھا نماز‘ روزہ اور قرآن خوانی عورتوں کا کام ہوتا ہے چنانچہ ہمارے گاؤں میں قرآن مجید کی تلاوت صرف خواتین کرتی تھیں‘
خواتین ہی پانچ وقت نماز پڑھتی تھیں اور 30 روزے بھی خواتین ہی رکھتی تھیں جبکہ مرد حضرات ان فرائض سے مکمل طور پر فارغ تھے‘ اسلام سے مردوں کی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ ہمارے گاؤں کی مسجد برسوں کسی جوان شخص کی منتظر رہتی تھی لیکن اسے لاغر اور بیمار بوڑھوں کے سوا کوئی نمازی نصیب نہیں ہوتا تھا‘ اگر کبھی بدقسمتی سے کوئی جوان اور صحت مند شخص مسجد میں داخل ہو جاتا تو امام بڑی دیر تک اسے سمجھاتا رہتا تھا ’’ برخورد دار یہ عصر کی نماز ہے اس میں چار فرض ہوتے ہیں اور تم نے اس قطار میں کھڑے ہو کر وہ کچھ کرنا ہے جو دوسرے کریں گے‘‘
ہمارے امام صاحب کی دینی قابلیت اور علم وفضل بھی نماز تک محدود تھا لہٰذا دوسرے دینی فرائض کے لئے عموماً پڑوس کے گاؤں سے علماء کرام امپورٹ کئے جاتے تھے ‘مجھے اچھی طرح یاد ہے ہمارے گاؤں میں جب مرگ ہو جاتی تھی تو لواحقین جنازہ پڑھانے کیلئے مولوی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے تھے ‘ ایک بار مولوی صاحب نے آنے سے معذوری کا اظہار کیا تو لواحقین اسے اسلحے کی نوک پر گھر سے اٹھا لائے تھے اور اسے لا کر جنازے کے سامنے کھڑا کردیا تھا‘
مولوی نے اس زیادتی کا انتقام اس طرح لیا کہ اس نے بھی میت کی بخشش کی دعا نہیں کرائی تھی اور ہمارے گاؤں میں شاید ہی کوئی مرد ہو جسے اس دور میں قرآن مجید پڑھنا آتا ہو‘ قرآن مجید ان دنوں حلف اٹھانے ‘ اونچے طاق میں رکھنے یا پھر عورتوں کے پڑھنے کے کام آتا تھا‘ میری تربیت اسی ماحول میں ہوئی تھی چنانچہ مذہب کے بارے میں میرا علم پہلے کلمے تک محدود تھا‘ انہی دنوں میرا خاندان گاؤں سے شہر منتقل ہوگیا‘ وہاں سکول ہمارے گھر کے سامنے تھا اور والدین نے میری علمی ’’ کارکردگی‘‘ کی بنیاد پر مجھے اس سکول میں داخل کرا دیا تھا‘
یوں میں گرتے پڑتے‘ لرزتے‘ ڈولتے پڑھتا چلا گیا‘میں سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی آگیا لیکن جہاں تک دینی تعلیم کا تعلق تھا تو وہ پہلے کلمے سے آگے نہ بڑھ سکی تھی۔ میں الکھ نگری کی طرف واپس آتا ہوں‘ میں عرض کر رہا تھا میں نے دو دن میں ’’ الکھ نگری‘‘ پڑھ ڈالی‘ اس کتاب سے مجھے تین چیزیں ملیں‘ ممتاز مفتی صاحب‘ تصوف اور قدرت اللہ شہاب۔ اسی کتاب سے مجھے ’’ شہاب نامہ‘‘ کا علم بھی ہوا‘ میں ذرا متمول قسم کا طالب علم تھا‘
میرے پاس پیسے کی کمی نہ تھی چنانچہ میں دوسرے ہی دن ’’ شہاب نامہ‘‘ خرید لایا‘ یہ ایک ضخیم کتاب تھی‘ مجھے اس کے مطالعے میں دس دن لگ گئے‘آپ نے بھی یقیناً یہ کتاب پڑھی ہوگی‘ آپ میں سے بہت سے لوگ اسے بائیو گرافی سمجھے ہوں گے ‘ کچھ لوگوں نے اسے دلچسپ ناول سمجھ کر پڑھا ہوگا‘ چند لوگوں نے تصوف کی عملی کتاب سمجھ کر اسے پڑھا ہوگا لیکن میرے لئے یہ اسلام کی پہلی کتاب تھی‘ یہ کتاب ایک ایسے نوجوان کیلئے قاعدے کی حیثیت رکھتی تھی جس کا دین ‘ جس کا مذہب پہلے کلمے سے آگے نہیں بڑھ سکا ہو‘
جسے وضو کا پورا طریقہ نہ آتاہو اور جو یونیورسٹی تک مکہ اور مدینہ کو ایک ہی شہر سمجھتا ہو‘اس کتاب سے میرا مذہب کی طرف رجحان ہوا اور میں نے اسلام اورتاریخ اسلام کا مطالعہ شروع کردیا‘ اس کتاب کے ذریعے میرا قدرت اللہ شہاب صاحب سے بھی تعارف ہوا اور مجھے تصوف کی مختلف جہتیں سمجھنے میں بھی مدد ملی‘ مجھے یہ کتاب پڑھ کر علم ہوا ہر انسان کیلئے اللہ کی ذات بہت ضروری ہوتی ہے اور ہر انسان کے اندر ایک صوفی ہوتا ہے اور ہمارے ان کہے‘ ان چھوئے سوال ہمیں اس صوفی کے قریب لے جاتے ہیں اور ہم اپنے اور اپنی حقیقت سے جاملتے ہیں‘
1993ء میں میری ممتاز مفتی صاحب سے ملاقات ہوئی تو یہ ملاقات جلد ہی دوستی میں تبدیل ہوگئی‘ میں مفتی صاحب کے انتقال تک ان سے ملتا رہا اور ان تمام ملاقاتوں میں شہاب صاحب ہمارا موضوع ہوتے تھے‘ممتاز مفتی صاحب نے بعد ازاں مجھے صدیق راعی صاحب سے ملایا‘ صدیق راعی شہاب صاحب کے روحانی شاگرد ہیں‘ شہاب صاحب نے انہیں روحانی ٹریننگ دی تھی‘ میری صدیق راعی کے ساتھ دوستی ہوگئی‘اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی روحانیت کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے‘
صدیق راعی صاحب راولپنڈی میں رہتے تھے لیکن بعد ازاں وہ جھنگ شفٹ ہوگئے اور میرا ان کے ساتھ ٹیلی فون پر اکثر رابطہ رہتا ہے‘ دو دن پہلے صدیق راعی صاحب نے مجھے فون کیا اور بتایا ’’ آج 24 جولائی ہے اور میرے بابے شہاب کی برسی ہے اور میں تمہارے ساتھ شہاب صاحب کی باتیں کرنا چاہتا ہوں‘ اس کے بعد صدیق راعی صاحب دیر تک قدرت اللہ شہاب کے بارے میں گفتگو کرتے رہے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ روحانیت میں شہاب صاحب کا کیا مقام ہے‘‘ صدیق راعی صاحب نے بتایا ’’ وہ اسلام اور تصوف کے پبلک ریلیشننگ افسر ہیں‘‘
میں نے وضاحت کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا ’’ اگر تصوف میں کسی کا کوئی استاد نہ ہواور وہ کشف المحجوب کو اپنا استاد بنا لے تو وہ سلوک کی منزلیں طے کرجاتا ہے بالکل اسی طرح اگر کوئی عام شخص اسلام اور تصوف کو سمجھنا چاہتا ہے‘ اگر وہ اپنے اندر کے صوفی سے ملنا چاہتا ہے تواسے چاہیے وہ ’’ شہاب نامہ ‘‘ پڑھ لے‘ اسے کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں رہے گی‘اسی طرح اگر کسی کو روحانی استاد دستیاب نہ ہو تو وہ وہ شہاب صاحب کو اپنا استاد بنا لے ‘ اسے زندگی میں کسی پیر‘ کسی استاد کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘