شہزادے کا اصل نام روشن اختر تھا‘ وہ شاہ جہاں حجستہ اختر کا بیٹا اور شاہ عالم بہادر شاہ اول کا پوتا تھا‘سید برادران نے اسے جیل سے رہا کرایا اور 17 ستمبر 1719ء کو تخت پر بٹھا دیا‘ اس نے اپنے لئے ناصر الدین محمد شاہ کا لقب پسند کیا لیکن تاریخ نے اسے محمد شاہ رنگیلا کا نام دے دیا‘محمد شاہ رنگیلا ایک عیش طبع غیر متوازن شخص تھا‘ چوبیس گھنٹے نشے میں دھت رہتا تھا اور رقص و سرود اور فحاشی و عریانی کا دل دادہ تھا‘
وہ قانون بنانے اور قانون توڑنے کے خبط میں بھی مبتلا تھا‘ وہ ایک ایسا پارہ صفت انسان تھا جو اچانک کسی شخص کو ہندوستان کا اعلیٰ ترین عہدہ سونپ دیتا تھا اور جب چاہتا وزیراعظم کو کھڑے کھڑے جیل بھجوا دیتا تھا ‘ وہ اکثر دربار میں ننگا آ جاتا تھا اور درباری بھی اس کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری میں کپڑے اتار دیتے تھے‘ وہ بعض اوقات جوش اقتدارمیں دربار میں سرے عام پیشاب کر دیتا تھا اور تمام معزز وزراء‘ دلی کے شرفاء اور اس وقت کے علماء اور فضلاء واہ واہ کہہ کر بادشاہ سلامت کی تعریف کرتے تھے‘ وہ بیٹھے بیٹھے حکم دیتا تھا کل تمام درباری زنانہ کپڑے پہن کر آئیں اور فلاں فلاں وزیر پاؤں میں گھنگرو باندھیں گے اور وزراء اور درباریوں کے پاس انکار کی گنجائش نہیں ہوتی تھی‘ وہ دربار میںآتا تھا اور اعلان کردیتا تھا جیل میں بند تمام مجرموں کو آزاد کر دیا جائے اور اتنی ہی تعداد کے برابر مزید لوگ جیل میں ڈال دیئے جائیں‘ بادشاہ کے حکم پر سپاہی شہروں میں نکلتے تھے اور انہیں راستے میں جوبھی شخص ملتا تھا وہ اسے پکڑ کر جیل میں پھینک دیتے تھے‘ وہ وزارتیں تقسیم کرنے اور خلعتیں پیش کرنے کا بھی شوقین تھا‘ وہ روز پانچ نئے لوگوں کو وزیر بناتا تھا اور سو پچاس لوگوں کو شاہی خلعت پیش کرتا تھا اور اگلے ہی دن یہ وزارتیں اور یہ خلعتیں واپس لے لی جاتی تھیں‘
وہ طوائفوں کے ساتھ دربار میں آتا تھا اور ان کی ٹانگوں‘ بازوؤں اور پیٹ پر لیٹ کر کاروبار سلطنت چلاتا تھا‘ وہ قاضی شہر کو شراب سے وضو کرنے پر مجبور کرتا تھا اور اس کا حکم تھا ہندوستان کی ہر خوبصورت عورت بادشاہ کی امانت ہے اور جس نے اس امانت میں خیانت کی اس کی گردن مار دی جائے گی اور اس نے اپنے دور میں اپنے عزیز ترین گھوڑے کو وزیر مملکت کا سٹیٹ دے دیا اور یہ گھوڑا شاہی خلعت پہن کر وزراء کے ساتھ بیٹھتا تھا‘
محمد شاہ رنگیلا کثرت شراب نوشی کے باعث 26 اپریل 1748ء کو انتقال کر گیالیکن آج بھی جب تاریخ محمد شاہ رنگیلا تک پہنچتی ہے تو اس کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ محمد شاہ رنگیلا اس نوعیت کا واحد کردار نہیں تھا‘ انسانی تاریخ ایسے سینکڑوں ‘ ہزاروں کرداروں سے لتھڑی پڑی ہے‘ آپ دنیا کی قدیم تہذیبوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو معلوم ہوگادنیا کی ہر تہذیب کو شروع میں نیک اور سمجھ دار بادشاہ ملے‘
ان بادشاہوں نے ملک میں میرٹ‘ عدل اور مساوات قائم کی جس کے نتیجے میں ملک نے ترقی کی اور وہ تہذیب معاشی خوشحالی کے دور میں داخل ہوگئی لیکن پھر اچانک ایک دن ملک میں کوئی نہ کوئی محمد شاہ رنگیلا آیا اور اس نے اپنے پاگل پن اور انا کو دستور‘ قانون اور آئین کی شکل دے دی اور وہ ملک اوروہ تہذیب بادشاہ کے پاگل پن کے ہاتھوں فنا ہوگئی‘ آپ مصر کے بادشاہوں کو دیکھئے ‘ بادشاہوں کی ایک نسل نے اہرام مصر جیسے تعمیراتی معجزے برپا کئے جبکہ دوسری نسل کے رنگیلے خدائی کے دعوے کرنے لگے‘
شداد جیسے بادشاہ نے زمین پر جنت بنا ڈالی‘ نمرود نے آگ دہکائی اور حضرت ابراہیمؑ کو اس آگ میں دھکیل دیا اور ایک بادشاہ نے اللہ کے نبی کو آرے سے چیرنے کا حکم دے دیا‘ روم کے ایک بادشاہ نے جوش شاہی میں پورے روم کو آگ لگا دی اور خود محل کی چھت پر بیٹھ کر بانسری بجانے لگا‘ ایک بادشاہ نے روم کے درمیان میں ایمپی تھیٹر بنایا اور 80 ہزار لوگوں کے درمیان بیٹھ کر بھوکے شیروں کو انسان کا شکار کرتے اور گوشت کھاتے دیکھنے لگا‘ روم کے ایک بادشاہ نے اپنی سگی بہن سے شادی کر لی ‘
یونان کا ایک بادشاہ ملکہ کے ساتھ برہنہ باہر نکلا اور عوام کو حکم دے دیا تمام لوگ باآواز بلند کہیں ’’ بادشاہ نے بڑا خوبصورت لباس پہن رکھا ہے‘‘ ایران کا ایک بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ شطرنج کھیلتا تھا اور اس بازی کے دوران اگر ملکہ ہارتی تھی تو وہ بادشاہ کو ایک غلام پیش کر دیتی تھی اور اگر بادشاہ کو مات ہوتی تھی تو وہ ایک غلام ملکہ کے حوالے کردیتا‘ یہ غلام کھیل کے آخر میں سرے عام ذبح کر دیئے جاتے تھے‘ ہندوستان کا ایک بادشاہ قطب الدین مبارک شاہ ہم جنس پرست تھا‘ وہ ایک ہندو لڑکے پر عاشق تھا‘
بادشاہ ایک دن دلہن بنتا تھا اور ہندولڑکا دلہا‘دربار میں دونوں کا باقاعدہ نکاح ہوتا تھا‘ رخصتی ہوتی تھی‘ ولیمہ ہوتا تھا اور سارے عمائدین سلطنت ’’ جوڑے ‘‘ کو باقاعدہ سلامیاں دیتے تھے‘ دوسرے دن وہ لڑکا دلہن اور بادشاہ دلہا بنتا تھا اور اس تقریب میں بھی تمام درباری اورشرفاء شریک ہوتے تھے‘ فرانس کے بادشاہوں نے ایک طویل عرصے تک غسل کو خلاف قانون قرار دیئے رکھا تھا ‘برطانیہ کے ایک بادشاہ کے دور میں شادیوں پر پابندی تھی اور جب تک کوئی شہری بادشاہ سے سر ٹیفکیٹ نہیں لے لیتا تھا اس وقت تک اسے وظیفہ زوجیت ادا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی‘
اس اجازت کو “Fornication Under Consent of King” کہا جاتا تھا اور انگریزی کا لفظ ایف یو سی کے یعنی فک اسی اجازت نامے کا مخفف ہے‘ امیر تیمور اسلامی دنیا کا بہت بڑا ہیرو تھا لیکن وہ قتل اور علم کے خبط میں مبتلا تھا اس نے اپنی زندگی میں 54ممالک میں کھوپڑیوں کے مینار بنائے اور علمائے کرام کو جمع کر کے قرآن مجید کی ترتیب بدلنے کا حکم دے دیا‘ چین کے ایک بادشاہ نے مردوں کوبرقع پہننے اورعورتوں کو ’’انڈرگارمنٹس‘‘ میں باہر آنے کا حکم دے دیا‘
جاپان کے ایک محمد شاہ رنگیلے نے کشتی بنانے کی سزا موت طے کر دی اور دوسرے نے دال پکانے کو ناقابل ضمانت جرم قرار دے دیا‘ اٹلی کے ایک بادشاہ نے عورتوں کے ہنسنے پر پابندی لگا دی جبکہ دوسرے نے قانون بنادیا سلطنت کی تمام عورتیں دانتوں پر راکھ ملا کریں گی‘ یہ وہ وقت تھا جب لیونارڈوڈاونچی مونا لیزا بنارہا تھا‘ شاید یہی وجہ تھی اس پینٹنگ میں مونا لیزا نے ہونٹ بھینچ رکھے ہیں اور پولینڈ کے ایک محمد شاہ رنگیلا نے ملک کی تمام عورتوں کو کتے پالنے کا حکم دے دیا تھا۔
آپ تاریخ کا کوئی باب اٹھا کر دیکھیں ‘ آپ کو اس میں بے شمار محمد شاہ رنگیلے ملیں گے ‘ پوری دنیا میں بیسویں صدی تک بادشاہت ہوتی تھی اور بادشاہ قانون کا درجہ رکھتے تھے لہٰذا جب کبھی یہ قانون کسی غیر متوازن اور پاگل شخص کے ہاتھ میں آ جاتا تھا تو وہ لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرتا تھا جو محمد شاہ رنگیلا نے ہندوستان میں کیا تھا‘
انسان نے دس ہزار سال کے سفر کے آخر میں سیکھا اختیارات فرد واحد کے پاس نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ اقتدار کی آخری سیڑھی پر پہنچ کر اکثر بادشاہ ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں اورپھر وہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے مقدر کا فیصلہ انا اور غرور سے کرنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے کے تارپور ہل جاتے ہیں چنانچہ دنیا کے 245ممالک میں سے 191ملکوں میں لوگوں نے بادشاہوں کے اختیارات مختلف اداروں میں تقسیم کردیئے جس کے نتیجے میں محمد شاہ رنگیلوں کا سلسلہ بھی رک گیا اور رعایا بھی انسانی حقوق‘ انسانی شعور اور انسانی عزت نفس کے دور میں داخل ہوگئی‘
اس دور میں ہر وہ ملک ترقی‘ امن و امان اور سکون کی لذت سے آشنا ہوتا چلا گیا جس میں اختیار اور اقتدار اداروں کے پاس تھا اور یہ ادارے قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتے تھے جبکہ وہ تمام ملک خلفشار‘ بدامنی‘ خانہ جنگی اور خانہ بربادی کا شکار ہوتے چلے گئے جن میں فیصلے ایک شخص یا چند لوگوں تک محدود رہے اوربدقسمتی سے ہمارا شمار دوسری فہرست کے لوگوں میں ہوتا ہے‘ میں نے کل ہی اخبار میں پڑھا تھا حکومت عدلیہ کو کنٹرول کرنے کیلئے آئین میں نئی ترمیم لارہی ہے‘
اس نئے آئینی بندوبست کے بعد حکومت سپریم کورٹ کے کسی بھی جج کو چیف جسٹس لگا سکے گی اور یہ چیف جسٹس صرف دو برس تک اس عہدے پر متمکن رہ سکے گا اور اس دوران بھی اگر حکومت کو محسوس ہوا چیف جسٹس ٹھیک کام نہیں کر رہا تو وہ اسے ہٹا بھی سکے گی‘ میں نے جب یہ خبر پڑھی تو مجھے محسوس ہوا پوری دنیا نے دس ہزار سال میں محمد شاہ رنگیلے سے جارج بش‘ گورڈن براؤن اورلی کو آن یو کی طرف سفر کیا لیکن ہم 21ویں صدی میں محمد شاہ رنگیلے کی طرف لوٹ رہے ہیں اور پوری دنیا شخصی اختیار سے اداروں کی طرف آگئی‘
وہ بادشاہوں سے جمہوریت‘ درباروں سے پارلیمنٹ اور ظل سبحانی سے آزاد عدلیہ کی طرف پہنچ گئی لیکن ہم عدلیہ‘ پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کو واپس ایک بادشاہ کی ذات میں جمع کر رہے ہیں‘ کیابات ہے ہماری‘ ہم وہ لوگ ہیں جو تاریخ کے دھارے سے الٹ سفر کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ہمیں اپنی کامیابی کا بھی یقین ہے‘ ہم کیا زبردست لوگ ہیں ‘ ہم گرم توے پر برف جمانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ ہم 21 ویں صدی میں محمد شاہ رنگیلے کا دور واپس لا رہے ہیں۔ہم جنرل پرویز مشرف جیسے محمد شاہ رنگیلا سے نکلتے ہیں تو جناب آصف علی زرداری نئے رنگیلے بن کر ہمارے سر پر سوار ہو جاتے ہیں۔کیا بات ہے ہماری۔۔!!