امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیںایک بار راہ چلتے ہوئے میں نے دیکھا، ایک ڈاکو لوگوں کو لوٹ رہا ہے۔ کچھ دنوں بعد مجھے وہی شخص مسجد میں نماز پڑھتا نظر آیا۔ میں اس کے پاس گیا اور اسے سمجھایا کہ تمہاری یہ کیا نماز ہے۔ خدا کے ساتھ معاملہ یوں نہیں کیا جاتا کہ
ایک طرف تم لوگوں کو لوٹو اور دوسری طرف تمہاری نماز خدا کو قبول اور پسند آتی رہے۔ ڈاکو بولا: امام صاحب! میرے اور خدا کے مابین تقریباً سب دروازے بند ہیں۔ میں چاہتا ہوں کوئی ایک دروازہ میرے اور خدا کے مابین کھلا رہے۔ کچھ عرصہ بعد میں حج پر گیا۔ طواف کے دوران دیکھتا ہوں ایک شخص کعبہ کے غلاف سے چمٹ کر کھڑا کہتا جا رہا ہے! یا اللہ میری توبہ، مجھے معاف کردے۔ میں اس نافرمانی کی طرف کبھی پلٹنے والا نہیں۔ میں نے دیکھنا چاہا اس بےخودی کے عالم میں آہیں بھر بھر کر رونے والا کون خوش قسمت ہے۔ کیا دیکھتا ہوں، یہ وہی شخص ہے جسے میں نے بغداد میں ڈاکے ڈالتے دیکھا تھا!!! تب میں نے دل میں کہا: خوش قسمت تھا، جس نے خدا کی طرف جانے والے سب دروازے بند نہیں کر ڈالے؛ خدا مہربان تھا جس نے وہ سبھی دروازے آخر کھول ڈالے! تو بھائی کیسے بھی برے حال میں ہو، کتنے ہی گناہگار ہو۔خدا کے ساتھ اپنے سب دروازے بند مت کر لینا۔ جتنے دروازے کھلے رکھ سکتے ہو انہیں کھلے رکھنے کےلیے شیطان کے مقابلے پر مسلسل زور مارتے رہنا۔ اور کبھی ہار مت ماننا۔ کوئی ایک بھی دروازہ یہاں کھلا مل گیا تو کچھ بعید نہیں وہ سب دوروازے ہی کھل جائیں، جن کے بارے میں تمہیں کبھی آس نہ تھی کہ خدا کی جانب سفر میں ان سب خوبصورت راہوں سے تمہارا کبھی گزر ہو گا!