ایک حبشی جس کی ناک موٹی، آنکھیں چھوٹی ، رنگت سیاہ، چلتا تو لنگڑاہٹ نمایاں نظر آتی تھی بولتا تو زبان میں لکنت ، غلام ابن غلام باغ کے جھاڑ جھنکار سے کھجوریں چننے میں مصروف تھا، یہ کھجوریں نرم نہ تھیں اور ذائقہ میں بھی باقی کھجوروں سے مختلف جبکہ رنگ گہرا اور دانہ بہت چھوٹا سا۔جھولی میں آئی کھجوریں اس باغ کا آخری پھل تھا وہ شہر میں انہیں
فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر کوئی ان کھجوروں کا طلبگار نہ تھا۔اسی اثنا میں ایک آواز آئی’’اے بلالؓ یہ کھجور تو تجھ جیسی کالی اور خشک ہے‘‘۔دل کے آبگینے پر اک ٹھیس لگی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے، سیدنا بلال ؓ کھجوریں جھولی میں ہی سمیٹ کر بیٹھ گئے۔ایسے میں وہاں سے اس کا گذر ہو جو ٹوٹے دلوں کا سہارا ہے جس نے مسکینوں کو عزت بخشی وہ جس کا نام غمزدہ دلوں کی تسکین ہے، ہاں وہی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ نے بلال رضی اللہ عنہ سے رونے کا سبب پوچھا تو سیدنا بلال ؓنے جھولی کھول کر سب ماجرہ کہہ سنایا۔رحمت اللعالمین ﷺ نے بازار کی جانب رخ انور موڑا اور آواز لگائی’’لوگو یہ کھجور ‘‘عجوہ‘‘ ہےیہ دل کے مرض کے لیئے شفاء ہے،یہ فالج کے لیئے شفاء ہے،یہ ستر امراض کے لیئے شفاء ہے،اور لوگو یہ کھجوروں کی سردار ہے،پھر یہ کہہ کر بس نہیں کیا فرمایا جو اسے کھا لے اسے جادو سے امان ہے‘‘۔منظر بدل گیا وہ بلال رضی اللہ عنہ جس کے پاس چند لمحے پہلے تک جھاڑ جھنکار تھا اب رحمت اللعالمین ، نبی آخر الزمان ،رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے غنی کر دیا۔پھر راوی لکھتے ہیں کہ لوگ بلال کی منتیں کرتے اور بلال کسی مچلے ہوئے بچے کی مانند آگے آگے بھاگتے۔تاریخ گواہ ہے کہ وہ جسے کبھی دنیا جھاڑ جھنکار سمجھ رہی تھی بلال رضی اللہ عنہ
کی جھولی میں آ کر اورمصطفٰے کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان مبارکہ کا صدقہ آج بھی کھجوروں کی سردار ہے۔