مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہمارے لئے سب سے محترم خانہ کعبہ جسے حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ نے اللہ رب العزت کے حکم سے تعمیر کیا ۔ یہ مسجد حرام کے درمیان میں واقع ہے۔ اسی کی طرف رخ کرکے مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔پوری دنیا سے آئے ہوئے لاکھوں مسلمان خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔ یہ دین اسلام کا مقدس ترین مقام ہے۔
تمام مسلمانوں کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ بیعت اللہ یعنی خانہ کعبہ کے اندرونی حصے میں بھی عبادت کرسکیں۔کعبہ شریف میں داخل ہونے کے لیے صرف ایک دروازہ ہے جسے ’ملتزم ‘یا ’باب کعبہ‘کہا جاتا ہے۔باب کعبہ زمین یا حرم کے فرش سے 2.13 میٹر اوپر ہے۔
یہ دروازہ کعبہ شریف کی شمال مشرقی دیوار پر موجود ہے اور اس کے قریب ترین دہانے پر حجر اسود نصب ہے جہاں سے طواف کی ابتدا کی جاتی ہے۔
خانہ کعبہ کے مقدس دروازے کی تنصیب اور تزئین و آرائش تقریباً14ملین سعودی ریال سے ہوئی جو کم و بیش پاکستان کے37کروڑ روپے سے زائد بنتے ہیں۔
قریش نے اپنے دور میں خانہ کعبہ کا طول اٹھارہ گز اوراندر جانے کے لئے صرف ایک دروازہ رکھا تھا، وہ بھی بلندی پر تھا تاکہ ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی شخص اندر داخل نہ ہوسکے۔
اخبار’سعودی گزٹ ‘نے اپنی ایک رپورٹ میں تاریخوں حوالوں کے ساتھ لکھا ہے کہ دروازے کی تزئین و آرائش پہلی دفعہ 1944ءمیں شاہ عبدالعزیز کے دور میں کی گئی جبکہ دوسری دفعہ شاہ خالد اور شاہ فہد کے ادوار میں تزئین و آرائش کا کام کیا گیا۔
سن1977ءمیں شاہ خالد نے دروازے اور اس کی بہترین آرائش کا حکم دیا۔ نئے دروازے کو اڑھائی سینٹی میٹر موٹی ایلومینیم کی تہہ سے بنایا گیا اور اس کی بلندی 3.1میٹر تھی۔ اس دروازے پر چاندی کی پرت چڑھائی گئی جس کے اوپر سونے کی پرت چڑھائی گئی۔
خلیجی اخبار’العربیہ‘ نےتفصیلی رپورٹ میں لکھا کہ ماضی میں کعبے کا دروازہ ہر ماہ دو سے تین مرتبہ کھولا جاتا تھا تاکہ تمام لوگوں کو داخلے کا موقع مل سکے تاہم آج یہ پورے سال میں صرف دو مرتبہ کھولا جاتا ہے۔
ایک مرتبہ یکم شعبان کو غسل کعبہ کے موقع پر اور دوسری مرتبہ یکم ذوالحجہ کو اس کے غسل اور نئے غلاف کی تبدیلی کے موقع پر۔ علاوہ ازیں یہ خادم حرمین شریفین کی اجازت سے مملکت کے مہمانوں کے لیے بھی کھولا جاتا ہے۔
بیت اللہ کو عام داخلے کے لیے اب نہیں کھولا جاتا ہے۔ اس کی وجہ مردوں اور عورتوں کے بے پناہ رش کی وجہ سے تکلیف اور نقصان پہنچنے سے بچانا ہے۔ بالخصوص جب کہ حالیہ چند سالوں میں حجاج کرام اور معتمرین کی تعداد بیس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایسی صورت حال میں کعبے کے متولی اور سکیورٹی اہل کاروں کے لیے بیت اللہ کے تقدس کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔
ماضی میں دروازہ کب کھولا جاتا تھا ؟
حرمین شریفین سے متعلق معلومات کی ویب سائٹ ’گیٹ وے آف الحرمين الشريفين‘ نے مراکش کے معروف مصنف ابو سالم العیاشی جو 1090 ہجری میں وفات پا گئے تھے ان کا قول نقل کیا ہے کہ بیت اللہ سال میں 7 مرتبہ کھولا جاتا تھا۔ وہ لکھتے ہیں’بیت اللہ کو قربانی یعنی عید الاضحی کے دن ، عاشوراء کے دن ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن کے علاوہ شعبان ، رمضان اور ذی القعدہ میں کھولا جاتا ہے۔ مزید برآں قربانی کے دن کے علاوہ بھی ایک روز صبح سے لے کر زوال تک کے وقت کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دوران کوئی بھی شخص کعبے میں داخل ہوسکتا ہے-
دروازہ کس طرح کھولا جاتا ہے ؟
بیت اللہ کے اعلیٰ متولی ڈاکٹر صالح زين العابدين الشيبی کعبے کا دروازہ کھولنے کی کارروائی کرتے ہیںجہاں متولی کی جانب سے دو افراد دروازہ کھولتے ہیں۔ ایک شخص چابی داخل کرتا ہے اور دوسرا ُقفل کو کھینچتا ہے۔ یہ ُقفل تکون شکل میں ہوتا ہے۔ کعبے کے دروازے کی اونچائی 2.4 میٹر جب کہ چوڑائی 1.7 میٹر ہے۔ یہ دروازہ خالص سونے سے بنا ہوتا ہے۔
دروازے کی تاریخ ؟
بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کا دروازہ اپنی ابتدا سے لے کر آج تک تاریخی طور پر سربستہ رازوں کا مجموعہ رہا ہے۔ اس کی اولین صورت کیا تھی اور سب سے پہلے تعمیر کرنے والے کون تھے ، اس بارے میں کوئی معلومات یا شواہد موجود نہیں۔ تاہم طویل عرصے سے کعبے کے دو دروازوں کا ہونا مصدقہ طور پر ثابت ہے۔
کعبے کے دروازے کی دیکھ بھال ہمیشہ سے عالم اسلام کے خلفاء اور فرماں رواؤں کا مطمع نظر رہی ہے۔ وہ اللہ عزوجل کے اسماء حسنی کے نیچے اپنے نام تحریر کرواتے اور اس پر سونے چاندی کے استعمال میں کسی قسم کے بخل کا مظاہرہ نہیں کرتے۔البتہ کعبے کے دروازے کی کنجی آل شیبہ خاندان کے پاس ہی محفوظ رہتی ہے۔ اس لیے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے نام وصیت کے مطابق بیت اللہ کے متولی ہیں۔ ان میں اعلی متولی کے پاس کعبے اور مقام ابراہیم کی کنجیاں ہوتی ہیں۔بیت اللہ یعنی کعبے کا دروازہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نظروں میں اپنے پورے تقدس کے ساتھ چمکتا ہے۔ اسی طرح روئے زمین پر بسنے والے بقیہ لوگوں کی نظر میں بھی اپنی صنعت کے صدق اور حسن و جمال کا لوہا منواتا ہے۔