اسلام آباد (نیوز ڈیسک) امریکی الیکٹرک گاڑی ساز کمپنی ٹیسلا کو رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد کمپنی کے سربراہ ایلون مسک نے اعلان کیا ہے کہ وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں اپنے کردار کو محدود کر دیں گے۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹیسلا کی گاڑیوں کی فروخت میں کمی اور منافع میں نمایاں گراوٹ کے بعد سرمایہ کاروں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2025 کی پہلی سہ ماہی میں کمپنی کی فروخت گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 20 فیصد تک کم ہوئی، جبکہ منافع میں 70 فیصد سے زائد کی کمی دیکھی گئی۔ کمپنی نے خبردار کیا ہے کہ مالی دباؤ آنے والے مہینوں میں بھی جاری رہ سکتا ہے۔
مارکیٹ میں ٹیسلا کے شیئرز کی قدر میں بھی بھاری کمی آئی ہے، جبکہ کمپنی نے ترقی کے حوالے سے کوئی واضح پیشگوئی کرنے سے گریز کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ موجودہ سیاسی ماحول اور پالیسی میں تبدیلیاں صارفین کی طلب پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔
ایلون مسک نے اعتراف کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ میں ان کی مصروفیات نے کمپنی کے معاملات سے ان کی توجہ ہٹا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ ماہ سے حکومتی سرگرمیوں پر صرف ایک یا دو دن صرف کریں گے۔ مسک نے ٹرمپ کی مہم کے لیے ایک چوتھائی ارب ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی تھی، اور وہ حکومتی اخراجات میں کمی سے متعلق ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کے سربراہ بھی ہیں۔
دنیا بھر میں ٹیسلا کو اس سیاسی وابستگی پر تنقید کا سامنا ہے، اور کئی ممالک میں اس کے خلاف احتجاج اور بائیکاٹ کی مہم شروع ہو چکی ہے۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق، رواں سہ ماہی میں ٹیسلا کی کل آمدنی 19 ارب 30 کروڑ ڈالر رہی، جو تجزیہ کاروں کی پیش گوئی 21 ارب 10 کروڑ ڈالر سے خاصی کم ہے۔ کمپنی نے فروخت بڑھانے کی کوشش میں گاڑیوں کی قیمتیں بھی کم کی تھیں، تاہم خریداروں کا ردِعمل مایوس کن رہا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ چین پر ٹرمپ کی جانب سے عائد کیے گئے محصولات نے بھی ٹیسلا کے اخراجات میں اضافہ کر دیا ہے، کیونکہ اگرچہ گاڑیاں امریکہ میں اسمبل ہوتی ہیں، لیکن ان میں استعمال ہونے والے متعدد پرزے چین سے آتے ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تجارتی پالیسیوں میں اتار چڑھاؤ نہ صرف اس کی سپلائی چین کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے بلکہ لاگت میں اضافے کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ ٹیسلا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بدلتا ہوا سیاسی ماحول مستقبل قریب میں ہماری مصنوعات کی مانگ پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔
ایلون مسک اور ٹرمپ انتظامیہ کے بعض مشیروں، خاص طور پر پیٹر ناوارو کے درمیان بھی اختلافات سامنے آئے ہیں۔ ناوارو کے ایک بیان پر مسک نے انہیں ’بدتمیز‘ قرار دیا تھا۔ ناوارو نے الزام لگایا تھا کہ مسک گاڑیاں تیار نہیں کرتے بلکہ محض اسمبل کرتے ہیں۔
مسک نے مؤقف اختیار کیا کہ ٹیسلا اُن چند کمپنیوں میں سے ہے جو شمالی امریکا، یورپ اور چین میں اپنی لوکل سپلائی چین کی وجہ سے تجارتی ٹیرف سے کم متاثر ہوئی ہیں، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ موجودہ ٹیرف کمپنی کے لیے اب بھی ایک بڑا چیلنج ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ کم ٹیرف کی وکالت کریں گے، لیکن ان کے اختیار میں صرف کوشش کرنا ہے۔ کمپنی نے یہ بھی کہا ہے کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت ترقی کے نئے مواقع پیدا کر سکتی ہے، تاہم ماضی میں سرمایہ کار اس قسم کے دعووں سے قائل نہیں ہوئے۔
رواں سال ٹیسلا کے شیئرز کی قیمت میں تقریباً 37 فیصد کمی آ چکی ہے، تاہم حالیہ نتائج کے بعد مارکیٹ بند ہونے کے بعد ٹریڈنگ میں ان کی قیمت میں 5 فیصد سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
سرمایہ کاری کے تجزیہ کار ڈین کوٹس ورتھ کے مطابق، کمپنی کی کارکردگی پر توقعات انتہائی نچلی سطح پر آ چکی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کی وجہ سے پیدا ہونے والا عالمی تجارتی خلل ٹیسلا کے لیے مزید خطرات لا سکتا ہے۔