اسلام آباد (نیوز ڈیسک) روس کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں نے ایران کے ساتھ سیاسی، عسکری اور اقتصادی روابط کو فروغ دینے کے لیے ایک 20 سالہ جامع معاہدے کی منظوری دے دی ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کی عکاسی کرتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اس معاہدے کی توثیق ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایران اور مغربی دنیا کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ روس یوکرین پر حملے کے باوجود امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ پچھلے چند برسوں کے دوران ماسکو اور تہران کے درمیان دفاعی تعاون میں نمایاں پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔
مغربی ممالک اور یوکرین کا الزام ہے کہ ایران روس کو “شاہد” نامی خودکش ڈرونز سمیت دیگر عسکری سازوسامان فراہم کر رہا ہے، جو یوکرینی جنگ میں استعمال ہو رہے ہیں۔ اس نئے معاہدے کے تحت دونوں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ مشترکہ سکیورٹی خدشات کا مل کر سامنا کریں گے، تاہم یہ معاہدہ دفاعی اتحاد کی نوعیت نہیں رکھتا، جیسا کہ روس اور شمالی کوریا کے درمیان ہوا تھا۔
روسی نائب وزیر خارجہ آندرے رودینکو نے اس معاہدے پر روشنی ڈالتے ہوئے وضاحت کی کہ اس کا مقصد باقاعدہ عسکری اتحاد بنانا نہیں ہے، بلکہ یہ باہمی تعاون کی ایک دستاویز ہے۔ معاہدے میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ اگر کسی ایک فریق پر حملہ ہوتا ہے تو دوسرا فریق حملہ آور کی مدد نہیں کرے گا۔
یہ طویل المدتی شراکت داری پر مبنی معاہدہ جنوری میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ایرانی صدر مسعود پزیشکیان کے درمیان طے پایا تھا، جس کے نفاذ کے لیے روسی پارلیمنٹ کی منظوری درکار تھی۔ صدر پیوٹن نے اس معاہدے کو “انقلابی قدم” قرار دیا، جبکہ صدر پزیشکیان نے کہا کہ یہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک “نئے دور” کا آغاز ہے۔