تہران /ریاض (این این آئی)ایران سات سال کی بندش کے بعد چھ جون منگل کوسعودی عرب میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولے گا۔غیر ملکی میڈیلاکے مطابق ایران اور سفارتی ذرائع کی جانب سے اس اعلان کے بعد مارچ میں چینی ثالثی میں طے پانے والے اعلان کردہ معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوجائے گا۔
سعودی عرب نے 2016 میں ایران کے ساتھ تعلقات اس وقت منقطع کر لیے تھے جب تہران میں اس کے سفارت خانے اور شمال مغربی شہر مشہد میں قونصل خانے پر اس وقت حملے کیے گئے تھے جب ریاض کی جانب سے شیعہ عالم نمر النمر کو دی گئی پھانسی کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔سعودی حکام کی جانب سے بے دخل کیا گیا ایران کا سفارتی مشن علی رضا عنایتی کی قیادت میں واپس آئے گا،
علی رضا عنایتی اس سے قبل کویت میں ایرانی سفیر رہ چکے ہیں۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے پیر کے روز جاری ایک بیان میں سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا اور اس حوالے سے ریاض میں سفارتی ذرائع کی جانب سے دیے گئے بیان کی تصدیق کردی۔ناصر کنانی نے کہا کہ ریاض میں ایران کا سفارت خانہ، جدہ میں قونصل خانہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں اس کا نمائندہ دفتر منگل اور بدھ کو باضابطہ طور پر دوبارہ کھول دیا جائے گا۔
قبل ازیں سفارتی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ افتتاحی تقریب منگل کو مقامی وقت کے مطابق شام 6 بجے سعودی عرب میں نئے تعینات ہونے والے ایرانی سفیر کی موجودگی میں ہوگی۔سعودی عرب نے تاحال اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ وہ تہران میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کب کھولے گا اور کسے وہاں اپنا سفیر تعینات کرے گا۔ایرانی میڈیا نے گزشتہ ماہ علی رضا عنایتی کو اسلامی جمہوریہ کا سعودی عرب میں نامزد کردہ سفیر بتایا تھا۔
ایرانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نامزد سفیر اس سے قبل وزیر خارجہ کے معاون اور وزارت خارجہ میں خلیجی امور کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔کئی برس کے اختلاف اور باہمی کشیدگی کے بعد 10 مارچ کو مشرق وسطیٰ کے 2 اہم ممالک نے چین میں حیرت انگیز مفاہمت کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
اس وقت سے سعودی عرب نے ایران کے اتحادی شام کے ساتھ بھی تعلقات بحال کیے ہیں اور یمن میں قیام امن کے لیے اپنی کوششیں مزید تیز کر دی ہیں جب کہ اس سے قبل اس نے برسوں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف جنگ میں فوجی اتحاد کی قیادت کی ہے۔ایران اور سعودی عرب دونوں تعلقات کی حالیہ بحالی سے قبل برسوں تک مشرق وسطیٰ کے تنازعات کا شکار علاقوں میں مخالف فریقوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔