مقبوضہ بیت المقدس(این این آئی )غزہ کی پٹی کے باشندے برسوں سے بمبوں کی گھن گھرج اور ان کی خوفناک آوازوں کی عادی ہوچکے ہیں۔ اب کوئی بھی چھوٹی موٹی آواز انہیں بم گرنے ہی کی آواز جیسی لگتی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق غزہ کی 10 سالہ بیسان المنسی کسی بھی دروازے کے بند ہونے کی آواز سنتی ہے تو وہ غلطی سے سمجھتی ہے کہ اس نے بم گرنے کی آواز سنی ۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان لڑائی کی تازہ ترین لہر کو ختم ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے، لیکن بیسان کا کہنا ہے کہ انہیں ڈرانے خواب اب بھی ستاتے ہیں۔ اس کا خوف کم نہیں ہوا۔غزہ میں ماہر نفسیات کا کہنا تھا کہ بیسان اکیلی نہیں بلکہ غزہ کی پٹی میں ایسے سیکڑوں بچے ہیں جو جنگ کی وجہ سے نفسیاتی عوارض کا شکار ہیں۔ وہ ایسے ان دیکھیخوف کا شکار ہیں جن کی وجہ سے ان کے رویوں میں منفی تبدیلیاں آ رہی ہیں، نیند کی کمی، بے چینی، بستر پربیشاب کردینے، ہر وقت والدین سے چمٹے رہنے اور گھر سے باہر جانے سے گریز کرنے جیسی عادتیں عام ہیں۔مقامی اور بین الاقوامی ماہرین کا کہنا تھا کہ فلسطینی سنہ 2008 سے اسرائیل کے ساتھ کئی جنگوں سے گذر چکے ہیں، جس کے نتائج سے نکلنا تقریبا ناممکن ہو گیا ہے کیونکہ وجوہات تبدیل نہیں ہوئیں۔
ان کا اندازہ ہے کہ دماغی صحت سے متعلق امداد کی ضرورت والے بچوں کی تعداد پٹی کے 2.3 ملین لوگوں میں ایک چوتھائی ہے، جو مصر کی طرف سے عائد اسرائیلی ناکہ بندی اور مشکل سرحدی پابندیوں کے تحت زندگی گذار رہے ہیں۔اسرائیل میں پچھلے مطالعات میں یہ بھی نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ اسرائیلی بچے جو مسلسل راکٹ فائر کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں وہ بہت زیادہ تنا، جارحیت اور بے چینی کا شکار ہیں۔
سرحد پار فائرنگ کے تبادلے کا تازہ ترین دور غزہ کی پٹی میں “اسلامی جہاد” تحریک کے رہ نماں کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی فضائی حملوں سے شروع ہوا اور یہ تصادم پانچ دن تک جاری رہا۔اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں نے اسرائیل پر ایک ہزار سے زائد راکٹ فائر کیے۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 33 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں بچے اور اسلامی جہاد تحریک کے 6 رہ نما شامل تھے، جب کہ ایک اسرائیلی اور اسرائیل میں ایک فلسطینی کارکن مارا گیا۔
غزہ کی پٹی میں بموں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں، کیونکہ 50 فیصد سے زیادہ فلسطینی غربت میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے گھروں کے علاوہ کوئی اور جگہ نہیں ہے۔فلسطینی حکام اور بین الاقوامی انسانی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ پٹی کا صحت کی دیکھ بھال کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے ۔امدادی گروپوں کا کہنا تھا کہ صحت کی خدمات تک رسائی محدود ہے۔ نقل و حرکت پر سخت پابندیاں ہیں اور نفسیاتی نشانات گہرے ہیں۔