کیف (این این آئی)یوکرین کی جنگ دوسرے سال میں داخل ہوگئی ہے ۔میڈیارپورٹس کے مطابق اس حوالے سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے کہا کہ ر وسی صدر پوتین یوکرین کو کچلنے کے حوالے سے اپنی فوج کی صلاحیت کے حوالے سے پر اعتماد ہیں۔ولیم برنز نے ایک ٹی وی انٹرویو میں مزید کہا کہ روسی فارن انٹیلی جنس سروس کے ڈائریکٹر سرگئی
ناریشکن نے گزشتہ نومبر میں اپنی ملاقات کے دوران تکبر اور غرور کے اشارے دئیے جو پوتین کے اعتقادات کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ پوتین یوکرینیوں کو زیر کرنے کے لیے اور ہمارے یورپی اتحادیوں کو تھکا دینے کے لیے وقت لینے کا حربہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔انہوں نے اشارہ کیا کہ یہ سیاسی تھکن آخر کار وقوع پذیر ہوگی۔ولیم برنز نے کہا کہ ملاقات میں وہ لمحہ جب میں نے ناریشکن کو روس کی جانب سے یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی کے نتائج سے خبردار کیا تھا بہت مایوس کن تھا۔ انہوں نے کہا میں روس کو پہنچنے والے نقصانات، حکمت عملی کی کوتاہیوں، اقتصادی نقصان اور بری شہرت کے باوجود جنگ جاری رکھنے کے لیے پوتین کو جنگ کے لیے پرعزم سمجھتا ہوں۔ولیم برنز نے نشر ہونے والے ای پی ایس نیٹ ورک پر نشر پروگرام فیس سکیورٹی میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اس وقت پوتین بہت پراعتماد ہیں کہ وہ یوکرین کو تھکا سکتے ہیں۔ یوکرین کو بڑھتے ہوئے اخراجات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔برنز نے یہ بھی کہا کہ پوتین یوکرین کی حمایت کرنے کے امریکہ کے عزم کو کم کر رہے ہیں۔ روسی رہنما کا خیال ہے کہ امریکی توجہ کی کمی کی خرابی کا شکار ہیں اور آخر کار ایک اور مسئلے کی طرف بڑھیں گے۔واضح رہے سی آئی اے ڈائریکٹر کا یہ بیانات جنگ کے ایک اہم موڑ پر سامنے آئے ہیں۔ کیونکہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ کو اعتماد ہے کہ چینی قیادت روس کو مہلک فوجی سازوسامان فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے۔
برنز نے مزید کہا کہ یہ ایک بہت خطرناک اور غیر دانشمندانہ شرط ہوگی۔ اس طرح کا اقدام دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تعلقات کو مزید کشیدہ کرنے کا کام کرے گا۔ اسی لیے مجھے بہت امید ہے کہ چینی ایسا نہیں کریں گے۔ برنز نے کہا کہ چینی رہنما شی جن پنگ نے بڑھتی ہوئی
جنگ کو قریب سے دیکھا ہے۔سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے کہا میرے خیال میں شی جن پنگ نے جو کچھ دیکھا اس سے وہ کئی طرح سے پریشان ہیں۔ پوتین کا غرور کہاں تک پہنچ گیا ہے۔ آمرانہ حکومتوں میں جب کوئی کسی لیڈر کو چیلنج نہیں کرتا تو یہ بڑی غلطی ہوتی ہے۔