نئی دہلی(این این آئی)کینیڈا میں انڈینز کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ 18 ستمبر کو اونٹاریو کے بریمپٹن شہر میں خالصتان کے حامی ایک گروپ سکھس فار جسٹس نے ایک ‘خالصتان ریفرینڈم’ کا انعقاد کیا۔ لوگوں نے اس کی سوشل میڈیا پر تصاویر بھی شیئر کی تھیں۔دوسری طرف بھارتی حکومت نے
کینیڈا میں سکھ برادری کی طرف سے الگ ریاست کے لیے کی جانے والی سرگرمیوں پر متعدد بار وارننگ دی ہے۔اس سے قبل کینیڈا کے کچھ علاقوں سے تشدد کی خبریں سامنے آئی تھیں جس کے بعد انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے کینیڈا میں رہنے والے انڈین شہریوں اور طلبہ کو خبردار رہنے کی ہدایت کی تھی۔مگر کینیڈا میں رہنے والے سکھوں کی رائے اس حوالے سے منقسم ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایک بڑے طبقے کے لیے یہ وارننگ صرف دکھاوا ہے۔ دوسرے طبقے کا کہنا ہے کہ یہ وارننگ ‘کینیڈا میں رہنے والے سکھوں اور پنجاب کی آزادی کے حامیوں کے آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی’ ہے۔جب کہ کینیڈا کے حکام نے اس سرگرمی کا دفاع اظہار کی آزادی کی ایک مشق کے طور پر کیا ہے۔ ہندوستانی وزارت خارجہ نے کینیڈا پر الزام لگایا کہ وہ انتہا پسندوں کو “سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کی کارروائیاں” کرنے کی اجازت دے رہا ہے جو کہ “بالکل ناقابل قبول” ہیں کیونکہ وہ ہندوستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ کینیڈا میں اپنے شہریوں اور طلبا کو جمعہ کو ایک انتباہ میں، ہندوستان نے انہیں متنبہ کیا کہ وہ وہاں نفرت پر مبنی جرائم اور فرقہ وارانہ تشدد میں “تیز اضافہ” کے درمیان “محتاط رہیں اور چوکس رہیں”۔ہندوستان سے آنے والے تارکین وطن کینیڈا کی آبادی کا کم از کم 1.4 فیصد ہیں، جن میں سکھوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے، خالصتان مہم نئی دہلی اور اوٹاوا کے درمیان تعلقات میں تیزی سے ایک حساس موضوع بنتی جا رہی ہے۔قانونی مشیر گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا کہ ‘مودی حکومت سفارتی طریقوں سے یہ رائے شماری روکنے میں ناکام رہی جس کے بعد وزارتِ خارجہ نفرت کا ماحول پیدا کر رہی ہے۔’