کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت، امریکا، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل سیکورٹی بلاک ”کواڈ“ کے مقابلے میں چین بھی نیپال، پاکستان اورافغانستان کے ساتھ مل کر اپنا سیکیورٹی بلاک”ہمالیہ کواڈ“ شروع کرنے والا ہے۔چینی میڈیا اور دیگر تھنک ٹینکس کی رپورٹوں کے مطابق چین پہلے ہی متعدد ہمالیائی ممالک کے ساتھ سلامتی اور تزویراتی(اسٹریٹجیک) تعاون پر کام کر رہا
ہے، اب اس شراکت داری کو باقاعدہ ”ادارہ سازی“ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔روزنامہ جنگ میں رفیق مانگٹ کی خبر کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ، باضابطہ اتحاد مشکل ہوگا۔چین کی ابھرتی طاقت کے جواب میں بھارت،امریکا،آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل چار جہتی سیکورٹی ڈائیلاگ (کواڈ) کا قیام عمل میں آیاجس کا بنیادی مقصد رکن ممالک کے درمیان بحری صلاحیت اور تعاون بڑھانا تھا لیکن اس کے ایجنڈے میں وسعت آب آگئی۔واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے غیر معمولی اقدامات کے بعد لبرل بین الاقوامی آرڈر کو خطرہ لاحق ہوگیاہے، چین کی اس گروپ بندی پر گہری نظر ہے۔ماہرین کے نزدیک بیجنگ بھی ایسا سیکورٹی گروپ قائم کرسکتاہے۔ بلکہ وہ انسداد دہشت گردی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عالمی چیلنجز پر توجہ رکھے گا۔کواڈ کی پہلی کانفرنس گزشتہ ماہ مارچ میں ہوئی جس میں چاروں ممالک کے رہنماؤں نے 2022 کے آخر تک پورے بحر الکاہل میں کووڈ 19 ویکسین کی ایک ارب خوراک فراہم کرنے کا وعدہ کیا اس اقدام کو وسیع پیمانے پر چین کی ویکسین ڈپلومیسی کے خلاف دیکھا گیا۔
امریکی تھنک ٹینک کا کہنا ہے بیجنگ نے روس کے ساتھ فوجی مشقوں اور سفارت کاری کے ذریعے تعاون مضبوط کرکے اس بلاک کو جواب دیا ہے، چین اور روسی وزرائے خارجہ کی کواڈ سربراہی کانفرنس کے بعد چین کے جنوب مغربی صوبہ گوانگسی میں ملاقات ہوئی۔تاہم روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے گذشتہ ہفتے ہندوستان کے دورے
پر دونوں کے درمیان ممکنہ فوجی اتحاد کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماسکو جامع تعاون میں دلچسپی رکھتا ہے۔مارچ کے اوائل میں، چین کی وزارت دفاع نے بھی کہا کہ بیجنگ ماسکو کے ساتھ فوجی اتحاد بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک اتحاد اور تیسرے ممالک کو نشانہ نہ بنانے کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔بیلاروس کے انسٹی ٹیوٹ برائے
اسٹریٹجک ریسرچ کے تجزیہ کار، یوری یارمولنسکی نے ایک مضمون میں لکھا کہ حالیہ پیشرفت بیجنگ کو کواڈ کا مقابلہ کرنے کیلئے چین، نیپال، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل ”ہمالیہ کواڈ“ تشکیل دینے پر مجبور کرسکتی ہے۔ مضمون نگار کے مطابق دہلی کے ایک تھنک ٹینک نے نومبر میں ہمالیہ کواڈ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔یارمولنسکی بھارت میں بیلاروس کی طرف سے سابق سفیر بھی
رہے، انہوں نے کہا کہ اس وقت چینی کواڈ اصولی طور پر موجود ہے، لیکن بحیرہ جنوبی چین میں فوجی مداخلت، تائیوان کی آزادی کی حمایت، جیسی سرخ لائنیں عبور ہونے کے صورت میں یہ بلاک ایک حقیقت بن سکتا ہے۔انہوں نے کہا، جب تک بیجنگ کے قومی مفادات کے تناظر میں کینبرہ، نئی دہلی، ٹوکیو اور واشنگٹن خاص سرخ لکیروں کو عبور نہیں کرتے، ہمالیہ کواڈ صرف ایک نظریہ ہی
رہے گا۔چین پہلے ہی نیپال، پاکستان اور افغانستان کے ساتھ سلامتی اور اسٹریٹجک تعاون پر شراکت دار ہے۔ تقریبا ایک دہائی سے، بیجنگ اور اسلام آباد 62 ارب امریکی ڈالر کے منصوبے سی پیک پر کام کر رہے ہیں۔فریقین نے اپنی مشترکہ سرحد کے اطراف سیکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے میں بھی تعاون کیا ہے۔نیپال کو بیجنگ سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور معاشی امداد موصول ہوتی ہے،
چین نے نیپال میں پیرا ملٹری پولیس فورس کے لئے ایک تربیتی اکیڈمی بھی کھولی ہے جو تبت کے ساتھ اپنی سرحد کی حفاظت کرتی ہے۔ دونوں ممالک کی فوجوں نے ماضی میں بھی انسداد دہشت گردی کی مشقیں کیں۔نیپال ہمالیہ میں چین اور بھارتی علاقائی تنازع کے تناظر میں ایک مضبوط گڑھ ہے،سنکیانگ میں سلامتی کو یقینی بنانے اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے افغانستان ایک اہم عنصر ہے جس کے ساتھ اس کی 76
کلومیٹر طویل سرحد مشترک ہے۔چین کی وزارت دفاع نے 2018 میں کہا تھا کہ وہ افغانستان کی دفاعی اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ افغان محققین کے مطابق بیجنگ نے 2016 سے 2018 تک افغان حکومت کو 70 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ کی فوجی امداد فراہم کی ہے۔امریکہ میں جارج میسن یونیورسٹی
کے پروفیسر مارک این کاٹز کا کہنا ہے اسلام آباد میں امریکی مخالف موقف جو پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوجی کارروائیوں سے پیدا ہوا ہے جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نا م دیا جا تا ہے اس وجہ سے پاکستان چین کے ساتھ اتحاد کرنے کے لئے تیار اور قابل ہے۔ جب تک بھارت دونوں ممالک پاکستان اور چین سے متصادم ہے، اسلام آباد اور بیجنگ کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی
مضبوط وجوہات ہوں گی۔گزشتہ سال ہندوستان اور چین کی مشترکہ سرحد پر تنازع اور بھارت اور پاکستان کے مابین کشمیر تنازع ہے۔ دہلی کے تھنک ٹینک کے ماہر کے مطابق چین نے پہلے ہی نیپال، پاکستان اور افغانستان کو کوڈ 19 پر بات کے لئے اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ماہرین کاکہنا ہے کہ چین کے ”ہمالیائی کواڈ“کا مقصد خطے میں بھارتی سرگرمیوں میں توازن کرنا ہے۔ چین
کی اس گروپ بندی میں روس، پاکستان،وسطی ایشیائی ممالک، ایران اور ترکی بھی شامل ہوسکتے ہیں۔کمزور معیشتیں، کمزور فوجی صلاحیتیں اور ملکی مسائل اور چیلنجوں کے باوجود ان ممالک کے چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں، تاہم یہ ضروری نہیں کہ وہ اچھے اتحادی بن جائیں۔ماہرین کا کہنا کہ امریکی انخلا کے بعدچین اس وقت طالبان کے ساتھ کام کرنے پر راضی
ہو گا، جب وہ ایغور مسلمانوں کی حمایت نہیں کریں گے۔ ممکنہ طور پر تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر چین متبادل کواڈ بنانے کے لئے اپنا اتحاد کرسکتا ہے، یا چین کواڈ کا اپنا ورژن تشکیل دے سکتا ہے۔