جنیوا (این این آئی) امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ساتھ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی دستبرداری کے تقریباً تین سال بعد ‘دوبارہ شمولیت’ اختیار کرے گا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق جنیوا میں کونسل کے اجلاس کے دوران نئے چیف انٹونی بلنکن نے کہا امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی محکمہ خارجہ کو ‘اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ساتھ
فوری طور پر اور مضبوط دوبارہ شمولیت کی ہدایت کی ہے’۔جو بائیڈن نے یہ قدم سابق امریکی صدر کی پالیسیوں کے پلٹنے کے تحت اٹھایا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے جون 2018 میں ملک کو 47 ممبران کی کونسل سے دور کردیا تھا۔انہوں نے اسرائیل کیخلاف اس کے ‘بے بنیاد تعصب’ اور حقوق غصب کرنیوالی اقوام کو میز پر بیٹھنے کی اجازت دینے کی ‘منافقت’ کے بارے میں شکایت کی تھی۔امریکی دستبرداری نے 2006 میں بننے والی اس کونسل میں خلا پیدا کردی تھی جسے چین اور دیگر بھرنے کی خواہش رکھتے تھے۔خیال رہے کہ امریکا خود بخود دوبارہ رکنیت حاصل نہیں کرسکتا اور اسے سال کے آخر تک انتخابات کا انتظار کرنا ہوگا۔انٹونی بلنکن نے تصدیق کی کہ امریکا ابتدا میں کونسل میں مبصر ہوگا۔انہوں نے زور دیا کہ ان کا ملک اب بھی اسے ایک ‘ناقص ادارہ سمجھتا ہے جس میں ایجنڈے میں اصلاحات، رکنیت، اور توجہ مرکوز کرنے بشمول اسرائیل پر اس کی غیر متناسب توجہ، میں اصلاح کی ضرورت ہے’۔انہوں نے بتایا کہ امریکی دستبرداری نے تبدیلی کو فروغ دینے کیلئے کچھ نہیں کیا۔اس کے بجائے کونسل نے ‘امریکی قیادت کا خلاء پیدا کر دیا تھا جسے آمرانہ ایجنڈے والے ممالک نے اپنے مفاد میں استعمال کیا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘کونسل کی خامیوں کو دور کرنے اور اس کے مینڈیٹ پر قائم رہنے کو یقینی بنانے کیلئے امریکا کو ہماری سفارتی قیادت کا پورا وزن استعمال کرتے ہوئے میز پر رہنا چاہیے’۔سفارتی عملے اور انسان حقوق کی تنظیموں نے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر جولین بریتھویٹ نے کونسل میں اقوام متحدہ کے تمام ممبران کی ‘مکمل مصروفیت’ کی اہمیت پر زور دیا۔