سری نگر(این این آئی) بھارتی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے بے گناہ نوجوانوں کے والدین کی دہائی عالمی میڈیا میں بھی پہنچ گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال 30 دسمبر کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی قابض فورسز کی جانب سے جعلی اِن کائونٹر میں 3 نوجوانوں کو شہید کیا گیا تھا، نوجوانوں کے لواحقین اب تک
انصاف تو درکنار اپنے پیاروں کی میتوں کے منتظر ہیں، نوجوان اطہر مشتاق وانی، زبیر احمد لون اور اعجاز مقبول طالب علم تھے جنھیں سری نگر کے مضافات میں بھارتی فوج نے ماورائے عدالت بے دردی سے مار دیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے بے گناہ نوجوانوں کے والدین کی دہائی عالمی میڈیا میں بھی پہنچ گئی ہے اورمظلوم کشمیریوں کی آہیں دنیا بھر میں سنی جا رہی ہیں، ایک ہفتہ پہلے برطانوی پارلیمنٹ میں بھی مقبوضہ کشمیر پر زبردست بحث کی گئی کہ جس میں برطانوی پارلیمان کے ممبران نے کھل کر بھارتی ریاستی دہشت گردی اور کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت کی، تاہم بے ضمیر مودی سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔مقتول اطہر مشتاق وانی کے والد مشتاق احمد وانی نے کہا کہ میرے بیٹے کو مارنے سے پہلے ایسا سلوک کیا گیا جو جانوروں سے بھی نہیں کیا جاتا جبکہ بھارتی فوج ہمیں اپنے بیٹے کا جسد خاکی بھی نہیں دے رہی، میں نے اپنے آبائی گائوں میں ایک خالی قبر کھود رکھی ہے اور ساری عمر اپنے بچے کی میت کا انتظار کروں گا۔ زبیر شہید کے والد غلام محمد لون کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو کبھی بھی پولیس نے طلب نہیں کیا تھا اور وہ تو بس اپنے کام میں مصروف رہتا تھا۔ زبیر شہید کی والدہ نے کہا کہ میرا بیٹا میرے
لیے سب کچھ تھا، میں اپنے لال کی قبر بھی نہیں دیکھ سکتی کیوں کہ اسے دور کہیں دفنا دیا گیا ہے۔ اعجاز شہید کے چچا طارق احمد نے بتایا کہ ان کا بھتیجا تو ریڑھ کی ہڈی کے درد میں مبتلا تھا، اعجاز یونیورسٹی میں اپنے امتحان کی تیاری کرنے گیا تھا کہ اسے شہید کر دیا گیا۔