واشنگٹن(آن لائن)جو بائیڈن انتظامیہ نے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاوس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سیلیوان کا اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔جیک
سیلیوان نے کہا ہے کہ امریکہ گزشتہ سال طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پرنظرثانی کرے گا انہوں نے کہا کہ خاص طور پر واشنگٹن یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ طالبان ‘دہشت گرد گروہوں سے تعلقات منقطع، افغانستان میں تشدد کو کم کرنے اور افغان حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بامقصد مذاکرات میں حصہ لینے کے وعدوں پر عمل پیرا ہیں’۔انہوں نے اپنے بیان میں ‘اس بات پر زور دیا کہ امریکا ایک مضبوط اور علاقائی سفارتی کوششوں سے امن عمل کی حمایت کرے گا، جس کا مقصد دونوں فریقوں کو پائیدار اور انصاف پسندانہ سیاسی تصفیہ اور مستقل جنگ بندی کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہوگا’۔مذکورہ بیان جوبائیڈن کے افغانستان کے بارے میں موقف کے مطابق ہے جنہوں نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں جنگی فوجیوں کی تعداد کو کم کردیں گے لیکن امریکی فوجی موجودگی سے دستبردار نہیں ہوں گے۔وزیر خارجہ کے لیے نامزد امیدوار انتھونی بلنکن نے اشارہ دیا تھا کہ افغانستان میں تشدد میں اضافے کے نتیجے میں امریکا اپنی کچھ فوجیں برقرار رکھ سکتا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ ‘ہم دہشت گردی کی دوبارہ سرزنش سے نمٹنے کے لیے کچھ گنجائش برقرار رکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں دھیان سے دیکھنا ہوگا کہ اصل میں کیا بات چیت ہوئی’۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ ‘ہم اس نام نہاد جنگ کو ختم کرنا
چاہتے ہیں’۔مذکورہ بیان کے بارے میں طالبان سے رابطہ کیا گیا۔طالبان نے امید ظاہر کی کہ امریکا ‘معاہدے پر قائم اور عہد کا احترام کریں’ گے۔قطر میں طالبان گروپ کے ترجمان محمد نعیم نے بتایا کہ ‘ہم توقع کرتے ہیں کہ دوسرا فریق (امریکا)بھی معاہدے پر پابند رہے گا’۔دوسری جانب افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر محیب نے ٹوئٹ
کیا کہ دونوں فریقوں نے ملک میں ‘مستقل جنگ بندی اور ایک منصفانہ اور پائیدار امن کی طرف کام کرنے پر اتفاق کیا ہے’۔واضح رہے کہ تقریبا 20 برس تک طالبان سے جنگ کے بعد امریکا، افغانستان سے انخلا، امریکی حمایت یافتہ حکومت اور ملک کے مختلف حصوں پر قابض جنگجو گروہ کے درمیان امن کے حصول کی کوششوں کے
طریقوں پر غور کر رہا ہے۔29 فروری 2020 کو امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔امریکی عہدیداران اور نیٹو نے مئی کے اواخر میں کہا تھا کہ اس وقت کورونا وائرس کے پھیلا کے سبب طالبان سے اتفاق کردہ شیڈول سے قبل افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 8 ہزار
600 کے قریب ہے۔یاد رہے کہ دو روز قبل نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے وائٹ ہاوس پہنچتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ پالیسیاں تبدیل کر دی تھیں۔بائیڈن نے حلف اٹھاتے ہی مسلمان ممالک پر سفری پابندیاں ختم کرنے سمیت 15 صدارتی حکم ناموں پر دستخط کر دیے۔امریکی صدر نے پیرس معاہدے میں دوبارہ شمولیت اور میکسیکو
سرحد پر متنازعہ دیوار کی تعمیر روکنے کا حکم نامہ بھی جاری کر دیا جبکہ وفاقی املاک میں ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا۔نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ ہمیں اور بہت سے معاملات پر قانون سازی کرنا ہو گی۔جوبائیڈن نے گزشتہ روز اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا وہ امریکہ کے 46 ویں صدر ہیں اور وہ امریکی کے معمر ترین صدر ہیں۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے پرتشدد مظاہروں کے بعد سخت سکیورٹی حصار میں امریکہ کے 46 ویں صدر جو بائیڈن نے حلف اٹھایا۔