نئی دہلی (آن لائن) بھارتی فوج نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پار کرنے والے چینی فوجی کوحراست میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔غیر ملکی خبررساں ا یجنسی کے مطابق گذشتہ سال جون میں لداخ کی وادی گلوان میں بھارتی فوج کے کرنل سمیت 20 فوجی مارے جانے کے بعد سے بھارت کی جانب سے کسی چینی فوجی کو
حراست میں لیے جانیکا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ خیال رہے کہ مذکورہ واقعے کے بعد سے مشرقی لداخ کی سرحد پر بھارت چین تناؤ برقرار ہے اور دونوں ممالک اس مقام پر ہزاروں فوجی تعینات کرچکے ہیں جہاں آج کل شدید سردی اور برف موجود ہے۔بھارتی فوج کے مطابق چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے ایک اہلکار کو گذشتہ روز بھارتی علاقے سے حراست میں لیا گیا ہے۔دوسری جانب چینی فوج کے ترجمان اخبار نے اپنے ایک اہلکار کی گمشدگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو اس حوالے سے آ گاہ کردیا ہے۔اخبار نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر عمل کرتے ہوئے گمشدہ فوجی کو چین کے حوالے کرے تاکہ بارڈر پر موجود تناؤ میں کمی آئے۔خیال رہے کہ اس سے قبل گذشتہ اکتوبر میں مشرقی لداخ کے ڈیم چوک سیکٹر میں بھی ایک چینی فوجی غلطی سے سرحد پار کرکے بھارتی علاقے میں چلا گیا تھا جسے بھارتی فوج نے حراست میں لے کر اگلے روز چین کے حوالے کردیا تھا۔دریں اثناء بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں نریندر مودی کی فسطائی حکومت کی طرف سے نافذ کالے قوانین کی وجہ سے بھارتی فوجیوں کو بیگناہ کشمیر یوں کے قتل کی کھلی چھٹی حاصل ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری کی گئی تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ آرمڈ
فورسز سپیشل پاورز ایکٹ جیسے کالے قوانین کی وجہ سے بھارتی فوجیوں کو مقبوضہ علاقے میں تحریک آزادی کو دبانے کیلئے نہتے کشمیریوں کے قتل کا لائسنس حاصل ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اس وقت کالے قوانین کے تحت ہزاروں کشمیری جیلوں میں بند ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت
انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے کئی مرتبہ نظر بندکشمیریوں کی رہائی اور کالے قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کیا ہے۔ کے ایم رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ علاقے میں سیاسی مخالفین کی آواز کو دبانے کیلئے کالے قوانین کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔ رپورٹ میں عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ کشمیریوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرے۔