بدھ‬‮ ، 15 جنوری‬‮ 2025 

وائلڈ لائف کی آبادی میں تشویشناک کمی عالمی تنظیم کا انتباہ

datetime 10  ستمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

برن(این این آئی)ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک عالمی تنظیم نے متنبہ کیا ہے کہ 1970 کے بعد سے وائلڈ لائف کی آبادی میں تشویش ناک طور پر 68 فیصد کی کمی آئی ہے جس پر فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

میڈیارپورٹس کے مطابق ماحولیات کے لیے کام کرنے والی معروف تنظیم دی ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف)نے کہاکہ جنگلی حیوانات و نباتات کی آبادی میں سنہ 1970 سے 2016 کے درمیان تشویش ناک شرح سے 68 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ ادارے کی ڈائریکٹر جنرل مارکو لیمبریٹنی نے بتایاکہ جنگلی حیاتیات کی مختلف النوع آبادی میں یہ سنگین گرواٹ اس بات کا عندیہ ہے کہ فطرت تیزی سے اجڑتی جا رہی ہے اور ہمارے نظام کی ناکامی پر تنبیہ کے لیے کرہ ارض پوری شدت سے اس کی نشاندہی کر رہی ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف نے  شائع ہونے والی اپنی 2020لیونگ پلانٹ انڈیکس رپورٹ کے لیے خشکی اور پانی میں پائے جانے والے چار ہزار سے زیادہ حیوانات اور مختلف حیاتیات پر معلومات جمع کرنے کی کوشش کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زرعی زمین اور کاشتکاری کے لیے جنگلات کو تیزی سے کاٹا جا رہا ہے اور جنگلی حیاتیات کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ جنگلوں کا خاتمہ ہے۔

اس رپورٹ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ زمین کے قدرتی وسائل کا حد سے زیادہ استحصال بھی وائلڈ لائف کی آبادی میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس تازہ رپورٹ کے مطابق زمین کا تقریبا ایک تہائی حصہ اب خوراک پیدا کرنے کے لیے وقف ہوچکا ہے اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق بعض علاقوں کو دوسروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وسطی اور جنوبی امریکا کے منطقہ حارہ میں واقع علاقوں میں گزشتہ پانچ عشروں کے دوران، جنگلی حیاتیات کی آبادی میں 94 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

محترمہ لیمبریٹنی کا کہنا تھاکہ یہ بہت تعجب خیز بات ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ قدرتی دنیا پر بالآخر ہم کس طرح کے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اس رجحان میں تبدیلی کے لیے بڑے پیمانے پر نیچر کے تحفظ کی کوششوں کی ضرورت ہے۔اس تحقیق کے مصنفین

کا کہنا تھا کہ کھانے پینے کی اشیا کو کم ضائع کرنے اور زیادہ ماحول دوست غذاں کی طرف توجہ کرنے سے مدد مل سکتی ہے۔ لیکن، ”اس طرح کی منظم کوششوں کی بین الاقوامی سطح پر ضرورت ہے۔اس تحقیق کے انچارج ڈیوڈ لیسلر کا کہنا تھا کہ اس پر فوری طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس میں مزید تاخیر کی گئی تو پھر اتنا زیادہ نقصان ہوچکا ہوگا کہ اسے دوبارہ بحال کرنے میں عشروں لگ سکتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



افغانستان کے حالات


آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…