کیلی فورنیا (این این آئی )نئے کورونا وائرس نے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کی روزمرہ کی زندگی اور ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے، جن کو طویل لاک ڈائون کا تنائو، بیمار ہونے کا خوف اور مالی مشکلات کا سامنا ہے۔نئے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی صحت کے حوالے سے ماہرین کی جانب سے کام کیا جارہا ہے مگر اس نئی تحقیق میں بماری سے محفوظ افراد پر مرتب اثرات کا جائزہ لیا گیا۔
میڈیارپورٹس کے مطابق امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں اپریل سے ہونے والے متعدد سروے رپورٹس کو بنیاد بنایا گیا، جن کا آغاز امریکا میں لاک ڈان کے نفاذ کے چند ہفتوں بعد ہوا تھا۔محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے یہ اولین تفصیلات میں سے ایک ہے، جاری تحقیق کے حوالے سے ہمارا خیال ہے کہ صورتحال مزید بدتر ہوگی، وبا جتنی طویل ہوگی اتنی ہی لوگوں میں اس کے خلاف مزاحمت کم ہوتی جائے گی۔تحقیق میں آن لائن، سوشل میڈیا، ویب سائٹ اور دیگر اداروں کی سروے رپورٹس کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے بیشتر امریکا سے تعلق رکھتی تھیں۔محققین اب وبا کی پیشرفت کے ساتھ ساتھ مزید تحقیق کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ان سروے رپورٹس میں لوگوں سے سابقہ آفات کے تجربات، ان کی مزاحمت، تنا، کووڈ 19 کے حوالے سے موجودہ صورتحال اور دیگر تفصیلات حاصل کی گئی تھیں۔اس تحقیق میں بیشتر افراد وہ تھے جو سرویز کا حصہ اس وقت بنے جب فیس ماسک کو لازمی قرار نہیں دیا گیا تھا، کاروباری اداروں کی بندش کا دورانیہ بڑھا نہیں تھا جبکہ بڑے پیمانے پر لوگ روزگار سے محروم نہیں ہوئے تھے۔محققین کا کہنا تھا کہ اس وقت سرویز میں شامل بہت کم افراد کو اپنے خاندان کے افراد میں بیماری یا اس کے نتیجے میں ہلاکت کا تجربہ ہوا تھا۔
اب ان سب عوامل کو مزید تحقیق کا حصہ بنانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔محققین نے دریافت کیا کہ کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں لوگوں میں ایک دوسرے سے ملاقات سے بیمار ہونے کے خطرات اور خدشات بڑھ گئے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ اصل خوف اس بیماری کے متعدی ہونے کا ہے، کیونکہ یہ ایک منفرد پہلو ہے کہ ایک وبائی بیماری لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے خطرے کا احساس بڑھا دے،یعنی اگر ہم دیگر کے لیے کچھ کرتے ہیں۔
تو اس سے تنا میں اضافہ ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ لوگوں میں تنا جتنا زیادہ ہوگا اتنی ہی مزاحمت کم ہوجائے گی۔محققین کے مطابق اب تک وبا کے دوران لوگوں کی روزمرہ کی جذباتی زندگی پر نہ ہونے کے برابر کام ہوا ہے۔تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اوسطا صرف 28 دن کے اندر دوتہائی افراد نے معتدل سے زیادہ تنا کو رپورٹ کیا جن میں سے اکثریت خواتین کی تھیں، جبکہ اکثر افراد زیادہ تعلیم یافتہ اور اس وقت ملازمت کررہے تھے۔محققین کا کہنا تھا کہ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سماجی طور پر کم وسائل رکھنے والے افراد کو زیادہ تنا کا سامنا ہے اور ان کی مزاحمت کی سطح بہت کم تو نہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے عوام میں پائے جانے والی بہت زیادہ غیریقینی صورتحال کو کم کیا جاسکے۔