کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک دستاویز سے معلوم ہوا ہے کہ چین اور ایران کے درمیان ہونےو الے معاہدے کی مدت 25؍ سال ہے، یہ ایک ایسا اسٹریٹجک شراکت داری کا معاہدہ ہے جس میں تجارت، سیاست، ثقافت اور سلامتی کے شعبے شامل ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ چین اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان تعاون کی باتیں نئی ہیں اور نہ ہی تازہ۔
لیکن اس کے باوجود جو بات اس تعاون کو ایران اور چین کے درمیان نئی شراکت داری سے الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے نہ صرف مقاصد عالمی نوعیت کے ہیں بلکہ علاقائی بھی ہیں، دونوں کا امریکا کے ساتھ تنازع ہے اور اس معاہدے میں سیکورٹی کا معاملہ بھی شامل ہے۔ قومی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان سیکورٹی معاہدے کا پہلو ہی امریکا کیلئے باعث پریشانی ہے۔گزشتہ سال کی ہی بات ہے کہ جب ایران اور چین کے ساتھ مل کر روس بحر ہند میں اور خلیج اومان میں مشترکہ بحری مشقیں کی تھیں تو امریکا ناراض ہوا تھا۔ چین کا مشرقی ایشیا اور افریقہ میں اثر رسوخ بڑھ رہا ہے اور اسی بات نے امریکی مفادات کیلئے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ وہ دوسرا محاذ ہو سکتا ہے جہاں بیجنگ واشنگٹن کی اجارہ داری کو چیلنج کر سکتا ہے اور اس مرتبہ یہ کام وہ ایران کے ذریعے کرنے جا رہا ہے۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے کیونکہ یہ معاہدہ اور اس کے اثرات معاشی دائرے اور باہمی تعلقات سے نکل کر آگے جائیں گے: معاہدے کے اثرات داخلی، علاقائی اور عالمی سطح کے ہو سکتے ہیں۔ داخلی لحاظ سے دیکھیں تو یہ معاہدہ ایران کو ایک نئی زندگی دے گا کیونکہ وہ پہلے ہی پابندیوں کا شکار ہے اور معاشی مسائل سے نمٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایران چین کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تعلقات کو مغرب کے ساتھ مذاکرات کیلئے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ امریکی الیکشن میں صرف تین ماہ باقی رہ گئے ہیں اور اگر ایران چین اسٹریٹجک پارٹنرشپ کا
باریک بینی سے جائزہ لیں تو یہ شراکت داری ریپبلکن پارٹی کی کامیابی کو سبوتاژ کر سکتی ہے۔اس معاہدے سے یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی زبردست دبائو کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے، صرف ناکام نہیں ہوئی بلکہ ایران کو اس کا رویہ تبدیل کرنے پر بھی آمادہ نہ کر سکی۔ طویل المدتی لحاظ سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ مغربی ممالک کی طرف اپنا فائدہ ڈھونڈنے کی بجائے
ایران اب مشرق کی طرف دیکھنے کی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے تاکہ وہ اپنی علاقائی اور عسکری طاقت کو فروغ دے سکے اور خلیج میں امریکی طاقت کا توڑ نکال سکے۔ایران کے ساتھ معاہدہ کرکے چین نے اپنے لیے یہ آسانی بھی پیدا کر دی ہے کہ وہ تیل کی سپلائی کے معاملے میں کسی ایک سپلائر پر انحصار نہیں کر نا چاہتا تاکہ اس کی اجارہ داری نہ قائم ہو پائے۔ یاد رہے کہ خطے میں چین کو
تیل سپلائی کرنے والے دیگر تمام عرب ممالک کے امریکا کے ساتھ قریبی سیکورٹی تعلقات ہیں۔چین کو خدشہ ہے کہ اگر تجارتی جنگ میں اضافہ ہوا تو امریکا ان عرب ممالک پر دبائو ڈال کر بیجنگ کیلئے تیل کی سپلائی رکوا سکتا ہے اسلئے ایران کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدہ چین کیلئے انشورنس پالیسی سے کم نہیں۔ اس کے علاوہ، ایران چین تعلقات کے نتیجے میں خطے میں امریکی اثر رسوخ پر
منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس معاہدے کے نتیجے میں چین دنیا کے اہم ترین خطوں میں سے ایک سمجھے جانے والے خطے میں وسیع تر کردار ادا کر پائے گا۔ خطے میں عراق پر امریکی حملے کے بعد سے اسٹریٹجک منظر نامہ تبدیل ہوگیا تھا لیکن اب یہ دوبارہ تبدیل ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ امریکا کے برعکس، چین نے مختلف ملکوں سے نمٹنے کے معاملے میں غیر سیاسی رویہ اختیار کر رکھا ہے،
معاشی تعلقات قائم کرتا ہے۔ امریکا نے ایران سے نمٹنے کیلئے اپنی آخری کوشش کرتے ہوئے ہی جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے شدید دبائو کی پالیسی اختیار کی تھی۔اگرچہ اس پالیسی نے ایران کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا لیکن اس کے باوجود تہران اپنے موقف پر قائم رہا اور اپنے علاقائی اور عسکری مقاصد نہ چھوڑے۔ سونے پہ سہاگہ، ایران اور چین کے درمیان یہ نیا معاہدہ امریکا کو مزید نقصان پہنچائے گا اور چین کیلئے مشرق وسطیٰ میں وسیع تر کردار ادا کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔