اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)امریکی جرنیلوں نے صدر ٹرمپ کے کہنے پر فوج کو مظاہرین کے خلاف استعمال کرنے سے انکار کر دیا، صدر ٹرمپ اپنے موقف سے پسپا ہونے پر مجبور ہوگئے، واشنگٹن کے باہر تعینات فوجی واپس شمالی کیرولائنا بھیج دیے گئے۔امریکی افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک میلی نے صدر ٹرمپ پر سرعام تنقید کی تھی اور فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ آئین کی
پاس داری کرے، سابق جرنیلوں نے صدر ٹرمپ پر فوج کو سیاسی چپقلش میں گھسیٹنے کی کوشش کا الزام لگایا تھا۔قومی موقرنامے میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک میلی نے صدر ٹرمپ پر سرعام تنقید کی تھی اور فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ آئین کی پاسداری کرے۔جنرل میلی نے مظاہرین کےحق اجتماع کو تسلیم کیا تھا اور واضح کیا تھا کہ فوجیوں نے اپنی زندگیاں امریکا کے لیے قربان کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک میلی نے فوج کے نام کھلے پیغام میں کہا تھا کہ اہلکار شہریوں کے حق آزادی کا تحفظ کریں گے ۔امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی جانب سے صدر کیخلاف بیان کے نتیجے میں فوج کو واشنگٹن سے واپس شمالی کیرولائنا بھیج دیا گیا۔بےگناہ جارج فلائیڈ کی موت کیخلاف مظاہرہ کرنیوالوں کو کچلنے کے لیے 200 فوجیوں کو واشنگٹن طلب کیا گیا تھا تاہم سڑکوں پر تعیناتی سے پہلے ہی صدر ٹرمپ کیخلاف محاذ کھڑا ہوگیا۔فوج کے سابق فوراسٹار جنرل جان ایلن اور سابق وزیردفاع جنرل ریٹائرڈ جیمز میٹس نے بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے فوج طلب کرنے پرکھلی تنقید کی تھی۔جنرل میٹس نے کہا تھاکہ ٹرمپ پہلے صدر ہیں جو ملک کو متحد کرنے کے بجائے تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔جنرل ایلن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کو امریکا میں جمہوریت کے خاتمے کا نکتہ آغاز قرار دیا ، انہوں نے صدر ٹرمپ کے گرجاگھر جاکر بائبل کو تھامنے پر بھی تنقید کی تھی اور فلائیڈ کے قتل
پر ٹرمپ کے ردعمل کو شرمناک قراردیا تھا۔وزیر دفاع مارک ایسپر نے بھی فوج تعینات کرنے کے معاملے پر صدر ٹرمپ کے بیان سے دوری اختیار کرلی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ کے دست راست سینیٹر لنزی گراہم نے بھی تسلیم کیا ہےکہ وہ اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ صدر ٹرمپ پر کوئی الزام عائدہی نہیں کیا جاسکتا۔ری پبلکن سینیٹر لیزا مرکووسکی نے جیمز میٹس کے بیان کو وقت کی ضرورت قرار دیا اور تسلیم کیا کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ کھڑا ہونا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔