نئی دہلی(آن لائن)بھارت کی ایک معروف یونیورسٹی میں اسٹیج پر کھڑے سیاستدان نے اپنے حامیوں کو دیکھا اور وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک سخت چیلنج پیش کردیا۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاست بہار کے بائیں بازو کے سیاست دان کنہیا کمار نے شام کے وقت سرد ہواؤں میں اپنی آواز کو بلند کرتے ہوئے کہا کہ ‘بھارت کا نظریہ خطرے میں آگیا ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم رکیں گے نہیں، حکومت کو اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے دو،
انہیں پولیس لانے دو، ہم اٹھایں گے انہیں غلط ثابت کرنے کے لیے، سن لو مودی’۔ان کے ہر ایک جملے کے بعد عوام نے ‘آزادی’ کا نعرہ لگایا جبکہ وہ بات کرتے ہوئے مسلسل ہوا میں اپنا ہاتھ اٹھاتے رہے اور گردن میں پہنے لال رومال کی جانب انگلی سے اشارہ کرتے رہے۔33 سالہ بہاری سیاست دان حالیہ ہفتوں میں سامنے آئے ہیں اور مودی کے لیے سیاسی طور پر ایک بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔خیال رہے کہ ہندو قوم پرست نریندر مودی کو گزشتہ سال دسمبر میں شہریت قانون لانے کے بعد سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون بھارت کے مسلمان اقلیتوں اور ملک کے سیکولر نظریے کے خلاف ہے۔یونیورسٹیوں میں ہونے والے احتجاج میں کوئی بھی ایک رہنما نہیں تھا اور طالب علموں کا کہنا تھا کہ یہ ہانگ کانگ میں ہونے والے حکومت مخالف احتجاج سے متاثر ہے۔تاہم کنہیا کمار کی ‘آزادی’ کے ترانے کی ریکارڈنگ تمام مظاہروں میں چلائی جاتی ہے جبکہ مظاہرین ساتھ ساتھ اس کے بول بھی پڑھتے ہیں۔نریندر مودی نے بھارت میں یکے بعد دیگر انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی ہے اور کنہیا کمار کی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا قومی سطح پر بی جے پی سے کوئی مقابلہ نہیں۔تاہم وزیر اعظم کے قریبی ساتھی کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس کے نمایاں ہونے پر تشویش ہے اور ان کے پیغامات نریندر مودی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور انہیں سیاسی طور پر کمزور بنا سکتے ہیں۔کنہیا کمار کا پیغام ان الزامات پر ہے جن پر نریندر مودی ناکام ہوئے، جن میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور لاکھوں بھارتی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا شامل ہے جبکہ نریندر مودی کی ہندو انتہا پسندانہ پالیسیز، جن سے ملک کی سیکولر شناخت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اقلیتوں کی زندگی مشکل ہورہی ہے، پر بھی تنقید کیا گیا ہے۔