پیر‬‮ ، 24 فروری‬‮ 2025 

وہ بے چاری بھوک سے مر گئی

datetime 25  فروری‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آپ اگر اسلام آباد لاہور موٹروے سے چکوال انٹرچینج سے نیچے اتریں تو آپ کو دائیں جانب تھانہ نیلہ ملے گا‘ اس تھانے میں یکم فروری کو ایک گم نام خط موصول ہوا جس میں انکشاف کیا گیا گھکھ گائوں کی ایک حویلی میں ایک لڑکی اور لڑکا دو سال سے بند ہیں‘ کوئی خاتون ہر دوسرے دن کھڑکی کے ذریعے انہیں کھانا دے جاتی ہے‘ یہ دونوں آخری سانسیں لے رہے ہیں‘ یہ خط بارہ دن پولیس کی فائلوں میں گردش کرتا رہا‘ بہرحال قصہ مختصر 12 فروری کو پولیس گائوں پہنچ گئی‘ گھکھ تھانہ نیلہ سے 25 کلومیٹر دور ہے‘ جنرل فیض حمید کی مہربانی سے گائوں تک سڑک بن گئی تھی‘ پولیس حویلی تک پہنچی تو اسے حویلی کے ایک کمرے میں بستر پر ایک لڑکی کی نو دس دن پرانی لاش ملی‘ لاش کے اوپر رضائیاں اور دریاں پڑی تھیں‘

لڑکی کی موت بظاہر بھوک اور سردی کی وجہ سے ہوئی تھی‘ وہ مکمل طور پر ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی‘ اس کا کل وزن 10 سے 15 کلو تھا‘ کمرے میں روٹی کے ٹکڑے بھی پڑے تھے جب کہ کونے میں لڑکی کا پاخانہ تھا جو ثابت کرتا تھا وہ کمرے میں بول وبراز کرتی تھی‘ اس کے جسم پر پھٹے پرانے اور بدبودار کپڑے تھے جن سے محسوس ہوتا تھا اس نے سال ڈیڑھ سال سے کپڑے نہیں بدلے‘ بال اور ناخن بھی بڑھے ہوئے تھے اور لڑکی نے مدت سے غسل بھی نہیں کیا تھا‘ پولیس نے دوسرہ کمرہ کھلوایا تو اس سے ایک نوجوان لڑکا ملا‘ وہ پولیس کو دیکھ کر چھپنے کی کوشش کرنے لگا‘ پولیس نے بڑی مشکل سے اسے یقین دلایا ہم تمہاری مدد کے لیے آئے ہیں‘لڑکے کی حالت بھی خستہ تھی‘ جسم سے بدبو آ رہی تھی‘ بال گندے اور لمبے تھے اور ان میں جوئیں پڑی ہوئی تھیں‘اس کا جسم بھی ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا‘ وہ نقاہت سے کھڑا تک نہیں ہو پا رہا تھا‘یہ بھی بول وبراز کمرے میں کرتا تھا‘ اس کا کمرہ انتہائی خراب اور گندہ تھا‘ بستر بھی غلیظ تھا‘ پولیس فوری طور پر لاش اور نوجوان کو تھانے لے گئی۔

نوجوان کو گرم پانی سے غسل دیا گیا‘ بال اور ناخن تراشے گئے اور اسے نئے کپڑے پہنائے گئے‘ اسے اچھی خوراک بھی دی گئی‘ یہ برسوں کا بھوکا تھا لہٰذا یہ جانوروں کی طرح خوراک پر پل پڑا‘ نوجوان کی طبیعت ذرا سی سنبھلی تو اس نے ہول ناک سٹوری سنائی‘ اس کے والد کا نام چودھری زرین تاج تھا‘ وہ شریف آدمی تھے‘ گائوں کے لوگ ان کی عزت کرتے تھے‘ دو سال پہلے ان کا انتقال ہو گیا‘ والدہ کا انتقال ان سے پہلے ہو چکا تھا‘ نوجوان کا نام حسن رضا ہے‘ اس کی عمر 32 سال ہے‘ لڑکی اس کی بہن تھی اور اس کا نام جبین تھا‘ عمر 25 سال تھی‘ لڑکی نے بی ایس سی کر رکھا تھا اور میٹرک میں اس نے راولپنڈی ریجن میں ٹاپ کیا تھا‘ وہ انتہائی محنتی اور ذہین بچی تھی‘ دونوں بہن بھائیوں کو وراثت میں 950 کنال زمین ملی‘ زمین ذرخیز اور قیمتی تھی‘ والدین کے بعد بہن بھائی اکیلے رہ گئے‘ ان کے تایا کے بیٹے تعداد اور اثرورسوخ میں زیادہ تھے لہٰذا تایا زاد چودھری عنصر محمود نے اپنے بھائیوں اشرف اور شکیل کی مدد سے ان کی زمین پر قبضہ کر لیا اور دونوں بہن بھائی کو پاگل مشہور کر کے حویلی میں بند کر دیا‘

یہ علاج کے نام پر انہیں ایسی دوائیں بھی دیتا رہتا تھا جس سے ان کا ذہنی توازن بگڑ جائے یا یہ فوت ہو جائیں‘ دونوں بہن بھائی کو دو سال دو مختلف کمروں میں بند رکھا گیا‘ انہیں کپڑے دیے جاتے تھے اور نہ گرمیوں میں پنکھا اور سردیوں میں رضائی‘ کھڑکی سے ان کے کمرے میں روزانہ ایک ایک روٹی اور تھوڑا سا سالن اندر پھینک دیا جاتا تھا‘ یہ بول وبراز بھی کمرے میں کرتے تھے‘ ملزم بااثر تھے‘ مسلم لیگ ن کے ایم این اے ذوالفقار دلہہ کے رشتے دار بھی تھے اور سپورٹر بھی چناں چہ گائوں کے لوگوں نے ڈر کر ہونٹ سی لیے اور خاموشی سے یہ ظلم دیکھتے رہے‘ اس دوران زمین تایا زاد بھائیوں کے قبضے میں رہی‘ یہ اس پر کھیتی باڑی بھی کراتے رہے اور انہوں نے ان کے 65 لاکھ روپے کے درخت بھی بیچ دیے‘ لڑکی جبین طویل ظلم برداشت نہ کر سکی ‘ یہ فروری کے شروع میں فوت ہو گئی اور اس کی لاش 9 دن کمرے میں پڑی رہی جب کہ لڑکا زندگی کی سرحد پر بیٹھ کرموت کا انتظار کر رہا تھا‘ یہاں تک کہ گائوں کے کسی شخص کو ان پررحم آ گیا اور اس نے تھانے میں گم نام خط لکھ دیا‘

بہن بھائی کی دوسری خوش نصیبی نیا ڈی پی او تھا‘ احمد محی الدین ٹرانسفر ہو کر چکوال آ گیا‘ یہ ڈی پی او کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاکر بھی ہے‘ احمد محی الدین کے نوٹس میں جب خط آیا تو اس نے فوری طور پر پولیس ایکشن کا حکم دے دیایوں دونوں بہن بھائی مل گئے‘ ڈی پی او اب علاقے کے بااثر لوگوں کا دبائو برداشت کر رہا ہے‘ نوجوان حسن رضا پولیس کی حفاظت میں ہے‘ یہ ٹراما کا شکار ہے ‘ پولیس اس کا علاج بھی کرا رہی ہے اور اس کی حفاظت بھی کر رہی ہے‘ یہ اس واقعے کا واحد گواہ اور مدعی ہے اگر خدانخواستہ اسے کچھ ہو گیا تو پھر ملزمان بڑی آسانی سے بری ہو جائیں گے‘ پولیس نے پہلے مرکزی ملزم عنصر محمود اور پھر اس کے دونوں بھائیوں اشرف اور شکیل کو گرفتار کر لیا‘ ملزم اس وقت ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں۔

چکوال کے اس واقعے کے دو ورژن ہیں‘ پہلا ورژن میں بیان کر چکا ہوں‘ یہ ورژن جب سامنے آیا تو میڈیا گھکھ گائوں پہنچ گیا‘ رپورٹرز اور کیمرے دیکھ کر گائوں کے لوگوں نے گھروں کے دروازوں پر باہر سے تالے لگائے اور چھپ کر اندر بیٹھ گئے‘ اس کا مطلب ہے لوگ ملزموں کے اثر میں ہیں اور کسی میں ان کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں اگر ملزموں پر غلط الزام تھا تو لوگوں کو گواہی دینی چاہیے تھی اور اگر الزام سچا تھا تو بھی لوگوں کو بولنا چاہیے تھا لیکن لوگ غائب ہو گئے‘ ان کا غائب ہو جانا بھی ایک ثبوت ہے‘ دوسرا ورژن یہ دونوں بہن بھائی پاگل ہیں‘ یہ لوگوں پر حملے کر دیتے تھے‘ پتھر بھی مارتے تھے اور ڈنڈوں سے بھی لوگوں پر حملہ کرتے تھے لہٰذا ان کے کزنز نے انہیں حویلی میں بند کر کے ان کا علاج شروع کرا دیا‘ یہ ان کی ٹیک کیئر بھی کرنے لگے‘ یہ بات بھی درست ہو سکتی ہے لیکن یہاں تین سوال پیدا ہوتے ہیں‘ اگر یہ لوگ ذہنی مریض تھے تو پھر لڑکی نے میٹرک میں پوزیشن کیسے لے لی اور یہ اچھے نمبروں سے بی ایس سی کیسے کر گئی‘ دوسرا اگر کزنز ان کا علاج کر رہے تھے یا ان کی ٹیک کیئر کر رہے تھے تو پھر یہ کس قسم کا علاج اور کیئر تھی جس میں دونوں کو حویلی کے کمروں میں بند کر دیا گیا تھا اور انہیں کپڑے اور ضروریات کا سامان تک نہیں دیا جا رہا تھا‘ یہ کمرے ہی میں بول وبراز کرتے تھے‘

دو سال پرانے‘ گندے اور بدبودار کپڑے پہنتے تھے اور انہیں کھڑکی سے خشک روٹی اور تھوڑا سا سالن ملتا تھا اگر یہ علاج اور کیئر ہے تو پھر ظلم اور زیادتی کیا ہو گی؟ آپ لڑکی کی لاش کو بھی اس سوال میں شامل کر لیں‘ لڑکی کو مرے ہوئے سات سے نو دن ہو گئے تھے لیکن کیئر اور علاج کرانے والوں نے اس کی تدفین مناسب سمجھی اور نہ انہیں اس کی موت کی اطلاع ملی‘ ان بے چاروں کو غسل تک نہیں کرایا جاتا تھا اور ان کے بال اور ناخن بھی نہیں تراشے جاتے تھے‘ کیا اس کو کیئر کہا جا سکتا ہے؟ اور تیسرا سوال علاج اور اس کیئر کے دوران ان کی جائیداد اور زمین کس کے قبضے میں رہی‘ وہ کون تھا جس نے ان کے 65 لاکھ روپے کے درخت بیچ دیے اور ان کی 950 کنال زمین پر کاشت کاری کرتا رہا‘ میرا خیال ہے اگر ان سوالوں کے جواب تلاش کر لیے جائیں تو کیس کا فیصلہ ہو جائے گا‘ میں یہاں ایک اور بات کا اضافہ بھی کرتا چلوں‘ آپ کسی بھی نارمل شخص کو سال چھ ماہ کسی کمرے میں بند کر دیں وہ پاگل ہو جائے گا لہٰذا ملزمان کے لیے حسن رضا کو پاگل ثابت کرنا بہت آسان ہے اور یہ لوگ کسی بھی وقت اچھا وکیل کر کے اس بے چارے مظلوم کو عدالت میں پاگل ثابت کر کے رہا ہو جائیں گے۔

ہم اگر اس واقعے کا تجزیہ کریں تو تین چیزیں سامنے آتی ہیں‘ اول ہم انسانوں کا معاشرہ نہیں ہیں یہاں انسانی شکل میں ایک سے بڑھ کر ایک درندہ پھر رہا ہے اور جب اس کے اندر سے جانور باہر آتا ہے تو یہ جنگلوں کو بھی شرما دیتا ہے‘ دوم‘ والدین صاحب جائیداد اور رئیس ہوں تو پھر انہیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی تگڑا بنانا چاہیے‘ حسن رضا اور جبین کے والد کو اگر احساس ہوتا تو یہ ان کے سروں پر کوئی ایسا آسرا چھوڑ جاتا جو ان کی حفاظت کرتا رہتا‘ میرا خیال ہے والد اپنے بھتیجوں کے عزائم کا ادراک نہیں کر سکا ہو گا جس کے نتیجے میں اس کی اولاد کزنز کے ہاتھوں ذلیل ہو کر رہ گئی اور سوم ہماری پولیس اور حکومت کے سسٹم میں بے شمار خرابیاں ہیں‘ ہم آج تک کوئی ایسی ہیلپ لائین‘ پورٹل یا کوئی ایسا ایڈریس تخلیق نہیں کر سکے جہاں لوگ گم نام خط لکھ کر دائیں بائیں ہونے والے مظالم یا جرائم کی اطلاع دے سکیں‘ مریم نواز کو چاہیے یہ فوری طور پر جبین کے نام سے ایک ہیلپ لائین تخلیق کر دیں اور تمام موبائل فون کمپنیوں کو پابند کر دیں یہ ہیلپ ایپ ان کے پیکج کا حصہ ہو گی‘ حکومت یہ بھی ڈکلیئر کر دے اس ہیلپ لائین پر فون کرنے والے شخص کا نام‘ نمبر اور پتہ ہمیشہ راز رہے گا‘ اسے کسی جگہ گواہی کے لیے بھی نہیں بلایا جائے گا تاکہ لوگ ظلم کے خلاف بے خوف ہو کر سیٹی بجا سکیں اور آخری بات‘ یہ ہیں ہم اور ہمارا سماج لیکن ہم اس سماج کے ساتھ اس ملک میں فرشتوں کی حکومت چاہتے ہیں‘ کیا یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں؟۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



وہ بے چاری بھوک سے مر گئی


آپ اگر اسلام آباد لاہور موٹروے سے چکوال انٹرچینج…

ازبکستان (مجموعی طور پر)

ازبکستان کے لوگ معاشی لحاظ سے غریب ہیں‘ کرنسی…

بخارا کا آدھا چاند

رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا…

سمرقند

ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت‘…

ایک بار پھر ازبکستان میں

تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں…

بے ایمان لوگ

جورا (Jura) سوئٹزر لینڈ کے 26 کینٹن میں چھوٹا سا کینٹن…

صرف 12 لوگ

عمران خان کے زمانے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم…

ابو پچاس روپے ہیں

’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے‘ اب دوبارہ…

ہم انسان ہی نہیں ہیں

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…