واشنگٹن( آن لائن )پینٹاگون نے امریکی دفاعی حکمت عملی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کو مسلم عسکریت پسندوں سے نہیں بلکہ چین اور روس سے خطرہ ہے. رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارک ملی نے کہا کہ چین اور روس امریکا کے عالمی مفادات کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے کردار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کابل سے فوجیوں کی واپسی طالبان سے معاہدے سے منسلک نہیں.رپورٹ میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ طویل مدتی تناظر میں چین ہی امریکاکے لیے واحد خطرہ ہے اور جوہری ہتھیاروں سے لیس روس آج کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بین الاقوامی سطح پر زبردست طاقت کے مقابلے کا امکان ہے. واضح رہے کہ جنرل مارک ملی 30 ستمبر کو جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے 20 ویں چیئرمین بننے کے بعد سے شام، ترکی، شمالی کوریا، روس، چین، ایران اور سعودی عرب کے معاملات میں فعال ہیں.رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ چین اور روس معاشی، سیاسی، سفارتی اورعسکری لحاظ سے اپنا دائرہ بڑھا رہے ہیں اور یہ سب ہائبرڈ تنازع کے پیش نظر ہورہا ہے ،امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارک ملی نے اعتماد کا اظہار کیا کہ چین اور روس اپنے علاقائی اور عالمی وقار کو بڑھانا چاہتے ہیں. ان کے مطابق امریکا کے دونوں حریف عالمی آرڈر میں رد و بدل پر مجبور کرنے کے لیے حکومت کے اس سارے جبر کو استعمال کریں گیجنرل مارک ملی نے رپورٹ میں حوالہ بھی شامل کیا کہ یہ ایک خطرناک دنیا ہے اور دوستوں کے ساتھ یہ بہتر ہے۔
واشنگٹن سے اپیل ہے کہ وہ چین اور روس کو امریکا کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہ دیں اور ہمیں طاقت کے ذریعے امن قائم رکھنا چاہیے.امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارک ملی کی ترجیحات کی فہرست میں بتایا گیا کہ چین اور روس کے بعد شمالی کوریا اور ایران امریکی مفادات کے لیے بڑا خطرہ ہیںپیر کو امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ طالبان سے امن معاہدہ کے علاوہ بھی افغانستان میں امریکی و نیٹو فوجیوں کی تعداد میں کمی کا جلد امکان ہیانہوں نے کہا کہ میں پر اعتماد ہوں کہ ہم افغانستان میں اپنے لوگوں کی تعداد میں کمی لائیں گے لیکن یقین ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ثابت نہیں ہوگی جو امریکا پر حملہ کرسکیں.واضح رہے کہ افغانستان میں 13 ہزار امریکی اور ہزاروں نیٹو فوجی موجود ہیںامریکی حکام نے کہا تھا کہ امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرکے 8 ہزار 600 تک لائی جائے گی جو صرف انسداد دہشت گردی کے منصوبوں میں معاونت فراہم کریں گے۔