واشنگٹن (این این آئی)ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کے روسی ہم منصب ولادی میر پوتین کو دونوں ایک دوسرے کا قریبی دوست ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو اپنے اپنے مفادات کے لیے خوب استعمال کرتے ہیں۔ تاہم اس باب میں روسی صدر کافی چالاک واقع ہوئے اور وہ ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن کو بھرپور طریقے سے استعمال کررہے ہیں۔امریکی جریدے نے لکھا کہ ترک صدر
رجب طیب اردوان اپنی مرضی سے واشنگٹن میں چالیں چل رہے ہیں۔ دھوکہ دہی اور دھمکیوں اور پھر دھمکیوں اور دھوکہ دہی کے امتزاج کے ذرائع اردوآن نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کو شمالی شام میں ایک ایسے معاہدے پر راضی ہونے پر قائل کیا ہے جس سے ترکی کی کی شام میں چڑھائی کو روکنے میں مدد ملے گی۔ کردوں کی رائے کچھ بھی ہو ، ان کے عزم اور قربانی کو بین الاقوامی مفاد عامہ سمجھا جانا چاہئے ، کیونکہ انہوں نے جدید دنیا کے مشہور خطرناک عسکریت پسند گروپوں میں سے ایک(داعش) کو روکا اور اسے ختم کردیا ہے۔ اس کے برعکس ، ترکوں نے کبھی بھی اس کوشش میں حصہ نہیں لیا۔تاہم اگر اردوآن نے واشنگٹن سے ہیرا پھیری کی تو روسی صدر ولادی میر پوتین نے بدلے میں ان سے بالکل ایسی ہی چالیں چلیں،اردوآن نے ابھی ماسکو کا دورہ مکمل کیا ہے ، جہاں پوتین نے سمجھدارترک رہ نما کو انتہائی متاثر کن روسی فوجی سازوسامان کی پیش کش کی ہے، جس میں ‘ایس یو 35 اورایس یو 57 لڑاکا طیارے شامل ہیں۔ روس کے ان جنگی طیاروں کو نئی جنریشن کے امریکی ایف 35 کا ہم عصر اور برابر کے لڑاکا طیارے کہا جاتا ہے۔