تہران(این این اائی)ایران کی سپریم سلامتی کونسل نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا نے مذاکرات کیلئے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو تہران بھیجا ہے۔ ان میں امریکی بھی شامل ہیں جو واشنگٹن کی طرف سے خفیہ ایلچی کے طور پر تہران کے دورے پر آئے ہیں۔ ایرانی قومی سلامتی کونسل کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم نے امریکا کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات سے صاف انکار کردیا ہے۔
جب تک امریکا تہران کے خلاف دھمکی آمیز طرز عمل تبدیل نہیں کرتا اس وقت تک واشنگٹن کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔خیال رہے کہ ایران کے جارحانہ رویے اور کسی بھی جنگی مہم جوئی کے دفاع کے لیے امریکا نے اپنا جنگی بیڑا، جنگی طیارے، بھاری اسلحہ اور فوج مشرق وسطیٰ میں تعینات کردی ہے۔ دونوں ملک اس وقت ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں ہیں اور ایک دوسرے کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ایرانی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کیوان خسروی نے کہا کہ امریکی مندوبین کی حیثیت سے تہران کے دورے پرآنے والی شخصیات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں بیشتر امریکی ہیں۔ ان میں سے بعض کے بارے میں معلومات شیئرکی گئی ہیں اور بعض کے نام مخفی رکھے گئے ہیں۔خیال رہیکہ 20 مئی کو سلطنت اومان کے وزیرخارجہ یوسف بن علوی نیتہران کا دورہ کیا اور اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف سے ملاقات کی تھی۔ دونوںرہنمائوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات، عالمی اور علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ خیال رہے کہ سلطنت اومان کے ایران اور امریکا دونوں کے ساتھ یکساں تعلقات قائم ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان جاری موجودہ کشیدگی کے دوران سفارت کاروں? اور عالمی شخصیات کے دورہ تہران کا مقصد دونوں ملکوںکے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنا ہے۔ایرانی میڈیا کے مطابق 12 مئی کو امیر قطر الشیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے بھی ایران کا دورہ کیا مگر ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے امیر قطر کیدورہ تہران کی خبروں کی تردید کی تھی۔15 مئی کو برطانوی ریڈیو نے خبر نشر کی کہ قطری حکومت کا ایک طیارہ ہفتے کے روز تہران پہنچا تھا۔ ریڈیو رپورٹ کیمطابق قطر امریکا اور ایران کے درمیان مصالحت کرانے کے لیے
کوششیں کررہا ہے۔ اومان کی طرح قطر بھی امریکا اور ایران دونوں کا اتحادی ہے۔گذشتہ منگل کو عراق کے وزیرخارجہ عادل عبدالمہدی نے کہا تھا کہ وہ اعلیٰ سطح وفود تہران اور واشنگٹن روانہ کررہیہیں تاکہ ایران اور امریکا کے درمیان جاری کشید گی کم کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھایا اور مشرق وسطیٰ کو ایک نئی جنگ سے بچایا جا سکے۔