نئی دہلی (این این آئی) بھارت میں فرانس سے رافیل جنگی طیاروں پر ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے اور کولکتہ کے اخبارنے انکشاف کیا ہے کہ قطر کو بیچے گئے اسی طرح کے طیاروں میں پاکستانی پائلٹس نے تربیت حاصل کی۔اس خبر کے بعد بھارت ہی کے ایک اور خبر رساں ادارے نے تصدیق کے لیے فرانسیسی سفارتخانے سے رابطہ کیا ۔
جس نے اس بات کی تردید کی کہ پاکستانی پائلٹس کو رافیل طیارے اڑانے کی تربیت دی ہے،ایوی ایشن کے شعبے پر لکھنے والے آزاد میڈیا نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ نومبر 2017 میں قطر کے لیے جن پائلٹوں کے پہلے دستے کو تربیت فراہم کی گئی وہ پاکستان کے ایکسچینج افسران تھے۔یہ خبر منظر عام پر لانے والے جو لیک نے لکھا کہ اسکادرن دی چیز 04.030(اسکواڈرن کا نام) کو قطر رافیل اسکواڈرن یکم اکتوبر 2017 کو مونٹ دی مرسن کے مقام پر قائم کیا تھا۔بھارت میں فرانس کے سفیر الیگزینڈر زگلر نے رپورٹ کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ یہ خبر غلط ہے۔فرانسیسی حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ انہوں نے اس خبر کی تفصیلات کی تصدیق کی جو غلط ثابت ہوئیں۔قطر نے مئی 2015 میں 24رافیل طیاروں کا معاہدہ کیا تھا اور ان کو پہلے رافیل کی ڈیلیوری رواں سال 6فروری کو ڈاسالٹ میرگ نیک سہولت پر دی گئی تھی۔دسمبر 2017 میں اس نے مزید 12طیاروں کا معاہدہ کیا تھا جہاں 24طیاروں کی مالیت 6.3ارب یورو تھی۔بھارتی ٹی وی نے کہا کہ پاکستانی فوج کے اہلکار کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ کے مختلف ملکوں کی افواج کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
بھارتی ٹی وی نے مزید کہا کہ جنوری 2018 میں قطر کی فضائیہ کے کمانڈر نے اسلام آباد میں پاک فضائیہ کے سربراہ سے ملاقات کی تھی جس میں پاک فضائیہ کے سربراہ نے مبینہ طور پر اپنے ہم منصب کو ایوی ایشن اور فوجی تربیت کے شعبوں میں تعاون کی درخواست کی تھی۔بھارت کا فرانس سے رافیل طیارے خریدنے کا معاہدہ تنازع کا شکار ہو گیا ہے جہاں اس میں کرپشن کا الزام عائد کیا گیا ہے اور بھارتی حزب اختلاف وزیر اعظم نریندر مودی پر یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ انہوں نے اس کا معاہدہ بھارتی صنعت کار انیل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کو دلانے کے لیے سازباز کی۔
جمعہ کو بھارتی سپریم کورٹ نے بھی مودی حکومت کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ میڈیا کی جانب سے رافیل طیاروں کے معاہدوں کی جن دستاویزات کا جائزہ لیا گیا ہے، انہیں ثبوت تصور نہیں کیا جا سکتا۔درخواست گزارنے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ حکومت کو کلین چٹ دینے کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے جس پر عدالت نے کہا کہ وہ خفیہ دستاویزات کا معائنہ کرے گی۔مودی حکومت کا کہنا تھا کہ ان خفیہ دستاویزات کو ان کے ملک کے حریف استعمال کر سکتے ہیں جہاں ان کا اشارہ پاکستان کی جانب ہوتا ہے۔