ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

امریکہ گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی خودمختاری تسلیم کرتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر امریکا کی کس شخصیت نے شدید ردعمل کا اظہار کر دیا

datetime 22  مارچ‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

واشنگٹن(اے این این)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی خود مختاری تسلیم کرتا ہے جبکہ امریکی وزارت خارجہ کے سابق عہدیدار رچرڈ ہاس نے امریکی صدر کے بیان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد کے مخالف ہے۔ٹوئٹر پر ایک پیغام میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ علاقہ انتہائی اسرائیلی ریاست کی سکیورٹی

اور علاقائی استحکام کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔اسرائیل نے 1967 میں اس علاقے پر قبضہ کر کے 1981 میں اسے اپنے ملک کا حصہ قرار دیا تھا تاہم اس اقدام کو عالمی سطح پر تسلیم صدر ٹرمپ کے بیان پر شامی حکومت نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے تاہم شام اس علاقے کی واپسی کا دعوی کرتا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو کئی بار شامی جنگ میں ایرانی مداخلت کی تنبیہ کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے صدر ٹرمپ کے اس بیان پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت جب ایران شام کو پلیٹ فارم بنا کر اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتا ہے، صدر ٹرمپ نے دلیری کے ساتھ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی خود مختاری تسلیم کی ہے۔ادھر امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک سابق اہلکار اور امریکی تھنک ٹینک کونسل آف فارن ریلیشنز کے صدر رچرڈ ہاس نے کہا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے فیصلے سے سخت اختلاف رکھتے ہیں۔انھوں نے کہا ہے کہ یہ اقدام اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد کے مخالف ہے۔واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کو نو اپریل کو انتخابات کا سامنا ہے اور ان پر کرپشن کے متعدد الزامات بھی لگائے جا چکے ہیں۔2017 میں امریکہ سرکاری طور پر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت سمجھتا ہے اور 2018 میں تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کردیا۔اس پر فلسطین اور عرب دنیا سے سخت ردِعمل سامنے آیا تھا۔ فلسطینی موقف ہے کہ مشرقی یروشلم ان کی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت ہو گا اور 1993 کے فلسطینی اسرائیلی معاہدے کے تحت یروشلم پر حتمی فیصلہ بعد میں ہونا ہے۔گولان کی پہاڑیاں کیا ہیں؟گولان کی پہاڑیاں 1200 مربع کلومیٹر پر پھیلی ایک پتھریلی سطح ہے جو کہ شامی دارالحکومت دمشق سے تقریبا 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں۔اس علاقے پر تقریبا 30 یہودی آبادی بسی

ہوئی ہیں اور ایک اندازے مطابق 20000 لوگ منتقل ہو چکے ہیں۔ اس علاقے میں تقریبا 20000 شامی لوگ بھی رہتے ہیں۔اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ کے آخری مرحلے میں اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور 1973 میں شام کی اس پر واپس قبضہ کرنے کی کوشش بھی ناکام بنا دی تھی۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…