انقرہ (این این آئی)ترکی میں 2016 میں انقلاب کی ناکام کوشش کے نتیجے میں صدر رجب طیب ایردوآن ایک مطلق العنان حکمران کے طور پر سامنے آئے تاہم اس واقعے کے ڈھائی برس بعد ایک ایسا ثبوت سامنے آیا ہے جو یورپی یونین کے ان شکوک کی تصدیق کرتا ہے کہ صدر ایردوآن کو پہلے ہی یہ معلوم تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے مگر انہوں نے وہ سب کچھ ہونے دیا تا کہ یک شخصی حکمرانی کے نظام کی بنیاد رکھی جا سکے۔
اس بات کا انکشاف انگریزی ویب سائٹ کی جانب سے کیا گیا ۔ یہ ثبوت ایک دستاویز کی صورت میں سامنے آیا جو ترکی کے پراسیکیوٹر نے 16 جولائی 2016 کو تحریر کی تھی، اس دستاویز کو تحقیقاتی صحافی احمد دونمیز نے حاصل کر لیا جو اس وقت سویڈن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔یہ دستاویز ان واقعات کا تفصیلی ریکارڈ ہے جو انقلاب والے روز صبح پانچ بجے اور سات بجے رونما ہوئے۔ مثلا دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ترکی کی فضائیہ کے انقلابی عناصر نے پارلیمنٹ اور صدارتی محل کے باغ کو بم باری کا نشانہ بنایا۔ ایسا واقعتا ہوا بھی تھا تاہم حیرت انگیز بات یہ ہے کہ واقعات کی تفصیلات مرتب کرنے والے پراسیکیوٹر سردار کوسکون نے اپنی دستاویز پر اس طرح سے تاریخ ڈالی ہے گویا کہ وہ رات ایک بجے یعنی کہ کسی بھی واقعے کے رونما ہونے سے چار گھنٹے قبل لکھی جا رہی ہو۔ویب سائٹ کے مطابق کوسکون نے ابتدا میں اس امر پر خاموشی اختیار کی۔ بعد ازاں حکومت کے حامی ایک صحافی کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے دستاویز کی تصدیق کی مگر ساتھ یہ بھی بتایا کہ وقت تحریر کرنے میں ان سے غلطی ہو گئی اور وہ اس کو بدلنا بھول گئے۔ ویب سائٹ کے مطابق کوسکون کی جانب سے یہ تشریح قابل اعتبار نہیں کیوں کہ انہوں نے دستاویز میں بعض واقعات کے بارے میں لکھا کہ یہ ابھی رونما ہوئے جب کہ درحقیقت وہ مطلقا واقع ہی نہیں ہوئے۔ ان واقعات میں قومی انٹیلی جنس کے ادارے کا محاصرہ ، اسپیشل فورسز کمانڈ کے صدر دفتر پر بم باری اور پولیس انٹیلی جنس بیورو کے دفتر پر بم باری جیسے واقعات شامل ہیں۔
برسلز میں ترکی کے سفارت خانے نے اس انکشاف پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔البتہ ایک تْرک ماہر کے مطابق دستاویز میں شامل واقعات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ایردوآن کے ساتھیوں کو اس بات کا مکمل علم تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ انہوں نے بعض واقعات کو کنٹرول صورت میں رونما ہونے دیا تا کہ آئندہ کریک ڈاؤن کے لیے میدان تیار کیا جا سکے۔ یہاں تک ان لوگوں نے پیشگی رپورٹیں بھی تیار کرنا شروع کر دیں تا کہ انہیں عدالتوں میں اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔