واشنگٹن (این این آئی)پینٹاگون کے چیف کا کہنا ہے کہ امریکا، افغانستان سے اپنے فوجیوں کی یکطرفہ واپسی نہیں کرے گا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پینٹاگون چیف نے ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا کہ افغان امن مذاکرات میں کابل حکومت کو لازمی حصہ بنایا جائے‘افغان حکومت کے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں۔امریکا کی جانب سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات جاری ہیں تاہم نیٹو کے
سیکریٹری جنرل جینفر سٹولٹنبرگ نے اشرف غنی کی افغان حکومت کی امن مذاکرات میں شمولیت میں تاخیر پر خبردار کیا۔دوسری جانب قائم مقام امریکی سیکریٹری دفاع پیٹریک شنہان نے کہا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ نیٹو سے مشاورت کے بعد ممکن ہوگا۔واضح رہے کہ نیٹو فورسز، افغانستان میں عسکری تربیت اورسپورٹ مشن کی ذمہ داری نبھا رہی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں موجود 14 ہزار امریکی فوجیوں کی واپسی چاہتے ہیں لیکن خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکا، کابل میں پائیدار امن قائم کیے بغیر انخلا چاہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں ہے۔بعد ازاں برسلز میں نیٹو ڈیفنس وزرا سے بات چیت کے بعد پیٹریک شنہان نے بیان دیا کہ ’واشنگٹن اکیلا ہی فیصلہ نہیں کرے گا۔انہوں نے کہا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ امریکی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کو ضرورت کے مطابق سیاسی اہمیت نہیں دی جارہی۔اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ضرورت ہے کہ ممکنہ طور پر امن پر بات کی جائے۔یاد رہے کہ چند روز قبل طالبان نے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد سے رواں ماہ مذاکرات کے لیے 14رکنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا تھا۔منگل کو اعلان کردہ طالبان کی ٹیم کی قیادت ملا عباس استنکزئی کریں گے جبکہ ٹیم میں گوانتاناموبے میں امریکی قید میں رہنے والے 5 سابق قیدی بھی شامل ہیں، جنہیں امریکی قیدیوں کے بدلے 2014 میں رہا کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران طالبان اور امریکا کے درمیان افغانستان میں امن کے قیام اور 18سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں تیزی ا?ئی ہے۔امریکی صدر ڈونلنڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد طالبان نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اپریل میں افغانستان سے نصف امریکی فوجی واپس لوٹ جائیں گے۔