بغداد(این این آئی)عراق میں زیرحراست ایک کیمیائی سائنسدان نے انتہائی خطرناک گروپ داعش کے ساتھ کام کرنے اور تنظیم کو کیمیائی بموں کی تیاری میں مدد فراہم کرنے کا اعتراف کیا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق 49 سالہ سلیمان العفاری عراق میں حکومت کا سرکاری ملازم تھا۔
مگر 2014ء کو اس نے موصل میں قبضہ کرنے والی داعش کا ساتھ دیا۔ اس نے داعش کو پیش کش کی کہ وہ اسے اپنے ساتھ ملازمت پر رکھیں، وہ داعشی جنگجوؤں کو کیمیائی گیس کے ذریعے بم بنانے میں مدد فراہم کریں گے۔رپورٹ کے مطابق 49سال کی عمر میں سلیمان العفاری نے داعش کے ساتھ کام شروع کیا اور مسلسل 15 مہینوں تک داعش کو مہلک کیمیائی گیس کی مدد سے بم بنا کردیتا رہا۔ اسے امریکی فوج نے 2016ء میں حراست میں لیا اور اس پر داعش کے ساتھ تعاون کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ عراق کی ایک عدالت نے اسے داعش سے تعاون کے الزام میں سزائے موت سنائی ہے اور وہ اب اربیل جیل میں سزائے موت پرعمل درآمد کا منتظر ہے۔گرفتاری کے بعد تفتیش کاروں کے سامنے بیان دیتے ہوئے العفاری نے داعش کے ساتھ تعاون کا جواز پیش کرنے کے لیے کہا کہ جب داعش کے جنگجوؤں نے موصل پر قبضہ کرکے وہاں اپنی حکومت قائم کرلی تو تنظیم کے ساتھ تنخواہ کے لیے کام کرنا اس کی مجبوری بن گئی تھی۔ اگر وہ داعش کے ساتھ کام نہ کرتا اسے ان سے مار دیا جاتا۔العفاری ان قلیل افراد میں سے ایک ہے جنہوں نے داعش کے ساتھ کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری میں مدد کی۔ تاہم وہ اس اعتبار سے بدقسمت ہے کہ اسے زندہ پکڑ لیا گیا۔ دوران تفتیش اس نے اعتراف کیاکہ وہ ‘سیرین’ گیس کی مدد سے کیمیائی بم بنانے میں داعش کی مدد کرتا رہا۔ یہ مہلک گیس پہلی عالمی جنگ کے دوران استعمال کی گئی تھی جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔