ماسکو(نیوز ڈیسک) روس کی میزبانی میں 17 سالہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے دوروزہ امن مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے جس میں امریکا، چین، پاکستان اور بھارت سمیت 12 ممالک کے وفد شریک ہیں۔روس امن مذاکرات کے لیے کافی پْرامید نظر آتا ہے، امریکا اور بھارت کو مذاکرات میں شرکت کے لیے راضی کرلینا ایک بڑی کامیابی سمجھی جارہی ہے اور عالمی قوتوں کے
ایک ساتھ کسی مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھنے کی مثبت روایت کا آغاز ہوا ہے۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان اور طالبان کو 17 سال سے جاری افغان جنگ کو ختم کرنے کے لیے راضی کرنے اور کسی ممکنہ حل کی جانب پہلا قدم بڑھانے کے لیے روس نے کثیر الملک امن مذاکرات کا انعقاد کیا ہے۔روس کی جانب سے امن مذاکرات کے انعقاد کے اعلان کے بعد سے امریکا سمیت مختلف ممالک کی جانب سے امن مذاکرات کو ملتوی کرنے کے لیے دباوکا سامنا رہا ہے تاہم روس کے صدر پوٹن نے ان ممالک کو شرکت کے لیے راضی کرلیا۔طالبان کی جانب سے بھی 6 نومبر کو اعلان کیا گیا تھا کہ قطر میں مقیم طالبان کے ایک وفد کو روس بھیجا جائے گا جو افغان جنگ کے خاتمے کے لیے تجاویز پیش کرے گا اور طالبان کے نکتہ نظر کو دنیا کے سامنے لایا جائے گا۔روس امن مذاکرات کے لیے کافی پْرامید نظر آتا ہے، امریکا اور بھارت کو مذاکرات میں شرکت کے لیے راضی کرلینا ایک بڑی کامیابی سمجھی جارہی ہے اور عالمی قوتوں کے ایک ساتھ کسی مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھنے کی مثبت روایت کا آغاز ہوا ہے۔واضح رہے کہ طالبان اور افغانستان کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر بھی کھولا گیا ہے جہاں امریکی فوج اور افغان حکومت کے اعلیٰ حکام نے طالبان نمائندوں سے گفت و شنید بھی کی تاہم اب تک حتمی نتیجے نہیں پہنچا جا سکا ہے۔