تہران (انٹرنیشنل ڈیسک)ایران اور القاعدہ کے درمیان باہمی تعلقات کی تفصیلات پر مبنی دستاویزات کا اہم حصہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے مبینہ کمپاؤنڈ سے امریکی سی آئی اے کے ہاتھ لگا مگر اتنی ہی اہمیت کی حامل ایک دوسری دستاویز بھی سامنے آئی ہے۔ اس دستاویز میں بھی ایران کی خمینی رجیم کی سلفی جہادی تنظیموں کے ساتھ دوستانہ مراسم کا ذکر ہے۔ ان سلفی گروپوں میں بلا استثناء الجزائر کی اسلامی شدت پسند بھی شامل ہیں جنہوں نے 1992ء میں اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا۔
اس سے قبل لیبیا میں ایک مسلح سلفی جہادی گروپ 1982ء میں قائم ہوچکا تھا۔ 2007ء میں یہ گروپ القاعدہ میں ضم ہوگیا۔ مصرمیں قائم ہونے والا ایک تکفیری گروپ بھی القاعدہ کی صف میں شامل ہوگا مگراسی فکر سے فلسطینی تنظیمیں حماس اور اسلامی جہاد کا ظہور ہوا۔عرب ٹی وی کے مطابق ایرانی رجیم نے اپنی تمام توانائیاں انتہا پسند سلفی جہادی انتہا پسندوں کو تحفظ دینے پر صرف کیں۔ چھ اکتوبر 1981ء کو جہاد اسلامی تنظیم کے ایک رکن نے مصری صدر انور سادات کا سینہ چھلنی کیا۔ اس گروپ کو ایران نے اپنے ہاں پلیٹ فارم مہیا کیا۔ایران میں ولایت فقیہ کا انقلاب اور مصر میں انور سادات کا قتل اس دور کے دو اہم واقعات ہیں۔ ان واقعات نے اسلام کے سیاسی نظام کے پرعلم برداروں اور خمینی فکر کے حاملین کو ایک گاڑی میں سوار ہونے کا موقع فراہم کیا۔ شیعہ افکار سے لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ جیسے گروپوں نے جنم لیا۔ ایران نے حزب اللہ جیسے گروپوں کی مدد سے عرب ممالک کی حکومتوں کے تختے الٹنے اور صخوی اسلامیہ کے پروگرام کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی اپنائی۔اس تفصیلی دستاویز میں القاعدہ کے ایران کے ساتھ تعلقات کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ ملتا ہے۔ القاعدہ لیڈر نے خمینی رجیم کی جانب سے سلفی جہادی گروپوں سے نمٹنے کے طریقہ کار بھی روشنی ڈالی اور 1995 اور 1997ء کے عرصے کے دوران الجزائر میں اسلامی شدت پسندوں کے ظہور سے قبل کے دور کو خشک سالی کا زمانہ قرار دیا۔عرب ممالک میں جب مذہبی جہادیوں پر عرصہ حیات تنگ ہونے لگا تو انہوں نے ایران کو اپنے لیے جائے امان پایا۔
وہ فرار ہو کر ایران پہنچتے رہے۔ لیبیا کے مسلح گروپ کے رہ نما ابو عبداللہ الصادق اور اس کے ساتھیوں نے بھی ایران میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ انہوں نے ایران اور قذافی کی حکومت کے درمیان اختلافات سے فایدہ اٹھایا۔ مصر اور ایران کے درمیان بھی تعلقات میں کشیدگی تھی اور مصری جہادی گروپوں کو ایران نے اپنے ہاں پناہ دے کر مصری حکومت کو یہ پیغام دیا تھا کہ تہران سیاسی اسلام کے حامیوں کو اپنے ہاں پناہ دینے میں متامل نہیں۔
چنانچہ مصر سے ایران جانے والوں میں الشیخ ابو المنذر، الشیخ ابو یحییٰ اور کئی دوسرے شامل تھے۔ نائن الیون کے حملوں میں اہم کردار ادا کرنے والے ایک القاعدہ کمانڈر نے ایران کے بارے میں کہا کہ افغانستان میں امارت اسلامی کے سقوط، طالبان کے انخلاء اور عرب مجاھدین کے منتشر ہونے کے بعد ہمارے بہت سے ساتھی پاکستان چلے گئے جب کہ ایک گروپ ایران جا پہنچا۔
پاکستان اور ایران جانے والے القاعدہ جنگجو کچھ عرصہ ان ملکوں میں رہے۔ بعد ازاں پاکستان میں موجود القاعدہ جنگجو بھی ایران جنے لگے۔ میں وزیرستان میں تھا اور وہاں سے کراچی پہنچا۔ وہاں تین ماہ قیام کیا۔ اس کے بعد ہماری قیادت نے ایران کے سفر کا حکم دیا۔ ہمارے بعض ساتھیوں نے کراچی میں ایرانی قونصل خانے سے ایران کے ویزے حاصل کئے اور بعض بغیر ویزوں کیایران میں داخل ہوگئے۔
دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیادت کے بحران کے مرحلے میں القاعدہ کے جنگجوؤں کو منظم رکھنے کی ذمہ داری ابو حفص الموریتانی کوسونپی گئی جنہوں نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے اسلامی جہادی گروپوں کو القاعدہ کے ساتھ مربوط رکھنے کی کوشش کی۔ ان میں مصر کی اسلامی جہادی قیادت، شام کے جہادی گروپ اور ابو مصعب الزرقاوی جیسے عناصر شامل تھے۔