نئی دہلی(آن لائن) چین کی فوجی قوت سے خوف زدہ بھارت سکم بھوٹان تبت ٹرائی جنکشن کے قریب متنازع علاقے شمالی ڈوکلام پرنظر رکھے ہوئے ہے جبکہ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اسی سطح پر آگئے ہیں جیسے گزشتہ برس فوجوں کے آمنے سامنے آنے سے قبل تھے۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے جمعرات کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ چین اور
بھارت کے مابین حالات میں کشیدگی آرہی ہے،حالات وہی آرہے ہیں جیسے گزشتہ سال دونوں ملکوں کے فوجیوں کے آمنے سامنے آنے سے پہلے تھے، سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو خدشہ ہے کہ سردی کا سخت موسم ختم ہونے کے بعد چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے فوجی اپنی قوت دکھانے کے لئے’’بڑی تعداد‘‘ میں ڈوکلام کے علاقے میں واپس آسکتے ہیں،چینی فوج نے شمالی ڈوکلام پر انفرااسٹرکچر بنالیا ہے لیکن ہماری افواج خطے کے اعتبار سے بہتر پوزیشن پر ہیں،ہم انتظار کرو اور دیکھو کی حالت میں کسی بھی مہم جوئی کے لئے تیار ہیں،شمالی ڈوکلام میں تقریبا1600 چینی فوجی قیام پذیر ہیں اور مستقل موجودگی کے لئے ہلی پیڈ، سڑکیں، شیلٹرز اور اسٹورز بھی تعمیر کرلئے ہیں۔بپن راوت نے کہا کہ پیپلز لبریشن آرمی کے فوجی اب بھی شمالی ڈوکلام کے ایک حصے میں موجود ہیں لیکن اْن کی تعداداتنی نہیں جتنی پہلے دیکھی گئی تھی،انہوں نے انفرااسٹرکچر بھی تعمیر کرلیا ہے جو بیشتر عارضی نوعیت کا ہے لیکن ہم بھی وہاں موجود ہیں، اگر وہ آگے بڑھے تو ہم سامنا کریں گے۔واضح رہے کہ ڈوکلام ہمالیائی علاقے کا وہ پہاڑی علاقہ ہے جہاں گزشتہ سال جون میں اس وقت تنازع پیدا ہو گیا تھا جب چین کی جانب سے سڑک کی تعمیر کی کوشش کے بعد چین اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے آگئی تھیں،چین اور بھوٹان کے درمیان اس خطے پر تنازع ہے جبکہ بھارت بھوٹان کے دعوے کی حمایت کرتا ہے۔