ریاض(سی پی پی)سعودی عرب میں سرکاری ملازمین کو نئے سیلز ٹیکس اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی تلافی کے لیے رقم دی جا رہی ہے اورسعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حکام کو نئے سال کے لیے ماہانہ 260 ڈالر سے زیادہ رقم ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔واضح رہے کہ سعودی عرب نے سال 2018 کے آغاز پر ملک میں پیٹرول کی قیمتوں میں دگنا اضافہ کرتے ہوئے زیادہ تر اشیا اور
دیگر خدمات بشمول کھانا اور یوٹیلٹی بلز پر پانچ فیصد ٹیکس متعارف کرایا تھا۔سعودی عرب کی حکومت مارکیٹ میں خام آئل کی حالیہ گرتی ہوئی قیمتوں کے باعث تیل پر انحصار کو کم کرنا چاہتی ہے۔ادھر متحدہ عرب امارات میں بھی سال 2018 کے آغاز پر پانچ فیصد سیلز ٹیکس متعارف کروایا گیا ہے۔سعودی شاہی فرمان کے مطابق شہری نجی صحت اور تعلیمی خدمات استعمال کرتے ہوئے اس ٹیکس سے منتثنی ہوں گے اور ریاست اپنا پہلا گھر خریدنے والے شہریوں کا ٹیکس بھی خود ادا کرے گی۔شاہی فرمان میں مزید کہا گیا ہے کہ یمن میں لڑنے والے فوجی اہلکاروں کو بھی ایک بار 1,000 ڈالر سے زیادہ کی رقم ادا کی جائے گی۔آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے ایک طویل عرصے سے خلیجی ممالک پر صرف تیل سے ملنے والی آمدنی پر انحصار کرنے کے علاوہ آمدنی کے مزید ذرائع ڈھونڈنے پر زور دے رہے تھے۔سعودی عرب کی قومی آمدنی کا 90 فیصد تیل کی بدولت آتا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات کی قومی آمدنی کا 80 فیصد تیل سے حاصل ہوتا ہے۔سعودی حکومت نے سنہ 2016 میں اخراجات میں کمی لانے کے لیے عوامی شعبے کی تنخواہ میں کٹوتی کا اعلان کیا تھا تاہم گذشتہ سال ان کٹوتیوں میں کمی آئی تھی۔سعودی عرب میں تقریبا دو تہائی ملازمین عوامی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ سنہ 2015 میں ان ملازمین کی تنخواہ اور دیگر مرعات کا 45 فیصد حکومتی اخراجات سے ادا کیا جاتا تھا جس سے حکومت کو
ریکارڈ خسارہ ہوا تھا۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس سلسلے میں اور بھی کئی اقدامات کیے ہیں۔سعودی عرب اس سے پہلے ملک میں تمباکو اور مشروبات پر بھی ٹیکس عائد کر چکا ہے جبکہ مقامی آبادی کو ملنے والی سبسڈی میں بھی کمی کر دی گئی تھی۔دوسری جانب متحدہ عرب امارات میں ٹول ٹیکس میں اضافے کے ساتھ سیاحتی ٹیکس بھی لاگو کیا گیا ہے۔