واشنگٹن (آئی این پی )ڈونلڈ ٹرمپ پہلے امریکی صدر نہیں ہیں جنہوں نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔ ان سے قبل 3 دیگر صدور بھی اس موقف کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے ٹرمپ نے گزشتہ شام اپنے ٹوئیٹر پر وڈیو بھی پوسٹ کی جس کے نیچے انہوں نے لکھا کہ”میں نے اپنے وعدے کو پورا کر دکھایا جب کہ دوسروں نے ایسا نہیں کیا”۔ ٹرمپ کا اشارہ دیگر صدور کی جانب تھا جنہوں نے بیت المقدس کو
عبرانی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا مگر اس پر عمل درامد کا وعدہ پورا نہیں کیا۔وڈیو میں سابق صدر بِل کلنٹن 1992 میں بیت المقدس کے متعلق بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “یہ ابھی تک اسرائیل کا دارالحکومت ہے اور اسے یکجا اور سب کے لیے ہونا چاہیے”۔ اس کے بعد سال 2000 میں جارج بش جونیئر نے کہا کہ “وہ منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کریں گے کہ “سفارت خانے کو اسرائیل کے درالحکومت بیت المقدس منتقل کریں گے۔آخر میں ہم سابق صدر باراک اوباما کی گفتگو سنتے ہیں جس میں وہ 2008 میں کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کا دارالحکومت بیت المقدس ہو گا۔ اسی برس انہوں نے دوبارہ نمودار ہو کر باور کرایا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب پھر اس بات کو دہرا رہا ہوں کہ بیت المقدس ہی اسرائیل کا دارالحکومت رہے گا اور اس کو یکجا رہنا چاہیے۔ان تمام وڈیوز کے بعد ٹرمپ گزشتہ برس اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک موقع پر مجمع سے خطاب میں کہہ رہے ہیں کہ وہ امریکی سفارت خانے کو یہودیوں کے ابدی دارالحکومت یعنی یروشلم منتقل کریں گے۔ اس کے بعد ڈرامائی طور پر وڈیو میں منظر تبدیل ہوتا ہے اور اگلے منظر میں ٹرمپ گزشتہ بدھ کے روز وہائٹ ہاس میں نظر آتے ہیں۔ ان کے پیچھے ٹرمپ کے نائب بھی موجود ہیں.. اور اس مرتبہ ٹرمپ نے سرکاری طور پر بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کر ہی ڈالا۔