کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان کی غیر ملکی سالانہ تجارت 10ارب ڈالرز ہے، جس میں اس وقت پاکستان کا حصہ صرف 12 فیصد ہے جو 1 ارب 20 کروڑ ڈالر کے قریب ہے جبکہ چند سال پہلے تک پاکستان کا افغان تجارت میں حصہ 50فیصد تک تھا ، اس وقت افغان تجارت کا کل حجم 5 ارب ڈالر تھا جس میں پاکستان کا حصہ ڈھائی ارب ڈالر تھا ، پاکستان کو دیکھنا ہوگا کہ وہ کیوں اور کن وجوہات کی بنا پر افغانستان کے ساتھ اپنی تجارت کھو رہا ہے ۔
دوسری طرف ایران کی چند سال پہلے تک افغانستان کو تجارت صرف 17 کروڑ ڈالر تھی جو اب بڑھ کر ڈھائی ارب ڈالر سے بھی زائد ہے ۔ افغان سفارتخانے کے ایک اعلی افسر نے بتایا کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے اپنی کمٹمنٹ پورا کرنا ہوگی ، اس کے علاوہ تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنا ہوں گی ، افغان تاجر پاکستان کی تجارتی پالیسیوں کی وجہ سے مایوس ہیں کیونکہ پاکستان کی طرف سے بعض اوقات افغانستان کے ساتھ بارڈر اچانک بند کردیا جاتا ہے جس سے مختلف اشیا خاص طور پر پھل اور سبزیاں گل سڑ جاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ بیورو کریٹک مشکلات ، راستے کی رکاوٹوں اور چیکنگ کے مراحل کی وجہ سے افغان تجارتی مال کراچی پورٹ سے افغانستان تک پہنچنے میں ایک ایک ماہ اور اس سے بھی زائد وقت لگ جاتا ہے ، اس سے منگوائے گئے سامان کی مانگ اور ضرورت کم ہوجاتی ہے اور تاجروں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ چاہ بہار کی بندرگاہ سے افغانستان کی تجارت بڑھ رہی ہے ، پاکستان کو توجہ دینا ہوگی کہ وہ افغان تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرے تاکہ پاکستان افغان تجارت میں اپنا حصہ بڑھا سکے ، اس میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے کیونکہ پاکستان کے راستے افغانستان سامان لانے میں زیادہ آسانی ہے ، دوسری جانب بھارت بھی پاکستان کی طرف سے پیدا کردہ خلا پر کرتے ہوئے اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ کابل میں جن باتوں اور معاملات پر اتفاق کیا گیا تھا اگر ان پر عملدرآمد ہوجائے تو معاملات بہت حد تک بہتر ہوجائیں گے ۔