نیویارک (این این آئی)اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ مذاکرات اور فوجی طاقت کا استعمال ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے ٗ دونوں کا ایک ساتھ استعمال افغانستان میں عدم استحکام اور افغان عوام کے مصائب میں اضافہ کرے گا ٗ افغان طالبان مذاکرات کی میز پر آئیں ۔ جنرل اسمبلی میں افغانستان کی صورتحال پر مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے پاکستانی مندوب نے کہا کہ مذاکرات اور فوجی طاقت کا استعمال
ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے اور دونوں کا ایک ساتھ استعمال افغانستان میں عدم استحکام اور افغان عوام کے مصائب میں اضافہ کرے گا۔پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے مسئلہ کے سیاسی حل پر زور دیا ہے اور وہ جنگ سے تباہ حال اس ملک میں امن مذاکرات کے فروغ کے لئے تعاون فراہم کرنے کو تیار ہے۔دنیا کے طاقتور ممالک کی طرف سے گذشتہ سولہ سال کے دوران فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جا سکا۔عالمی برادری یقیناً افغانستان میں امن کے قیام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن اس عمل کی قیادت افغان عوام کے ہاتھ میں ہی ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان مذہبی اور ثقافتی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے کی جانے والی ہر کوشش بشمول ہارٹ آف ایشیا، سکس پلس ون، انٹرنیشنل کانٹیکٹ گروپ ، کواڈریلیٹرل کوارڈینیشن گروپ ، ماسکو فارمیٹ اور کابل پراسس میں حصہ لیا ہے۔پاکستانی مندوب نے اس موقع پر افغان طالبان سے بھی اپیل کی کہ وہ تشدد ترک کر کے مذاکرات کی میز پر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ پیش رفت اس وقت ہو سکتی ہے جب افغان فریق بھی اس بات سے متفق ہوں کہ امن فوجی طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ غیر مشروط مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔پاکستان افغان جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور اس نے لاکھوں افغان مہاجرین کے کئی عشروں سے اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔افغانستان میں تشدد پسندوں اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث گروہوں کا گٹھ جوڑ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ پاکستانی مندوب نے بتایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں بے پناہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں۔