بغداد(مانیٹرنگ ڈیسک)عراق میں لڑکیوں کیلئے شادی کی کم از کم عمر کو 18 برس سے کم کر کے 9 برس کر نے کے حوالے سے متنازع ترمیمی بل پر مختلف حلقوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے ، اس بِل پر ابتدائی رائے شماری بھی ہو چکی ہے ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق عراقی پارلیمنٹ میں ذاتی احوال کے قانون سے متعلق دو ہفتے قبل پیش کیا جانے والا ترمیمی بل ابھی تک مختلف حلقوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر
تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس بِل پر ابتدائی رائے شماری بھی ہو چکی ہے۔اس سلسلے میں تازہ ترین نکتہ چینی بدھ کے روز عراقی کلا کی انجمن کی جانب سے سامنے آئی۔ انجمن نے ذاتی احوال سے متعلق مجوزہ قانونی بل کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ شناخت کا پہلو اجاگر ہو گا۔ انجمن نے اپنے بیان میں کہا کہ مجوزہ بِل کے سبب خاتون شہری کو ذاتی احوال کے موجودہ قانون کے تحت حاصل حقوق سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ نیا بل آئین کے آرٹیکل 14 سے منظور شدہ قانون کے تحت مساوات کے بنیادی اصول کو منسوخ کرتا ہے۔وکلا کی انجمن کے مطابق نئے قانون میں سب سے زیادہ متنازعہ پہلو عراقی لڑکیوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر کو 18 برس سے کم کر کے 9 برس کر دینا ہے۔ اس طرح انسانی حقوق کے تمام بین الاقوامی معاہدوں اور منشوروں پر عمل درامد رک جائے گا جن کی عراق توثیق کر چکا ہے اور وہ اس کے قانون ساز نظام کا ایک حصہ ہیں۔نیا ترمیمی بل من مانی طلاق کی صورت میں بیوی کو نہ صرف زر تلافی سے بلکہ مطلقہ کو شوہر کے گھر میں سکونت سے بھی محروم کر دے گا۔یاد رہے کہ عراقی پارلیمنٹ نے نومبر کے اوائل میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران ذاتی احوال کے قانون سے متعلق ترمیمی بِل پر ابتدائی طور پر ہونے والی رائے شماری میں موافقت کا اظہار کیا تھا۔